|
ویب ڈیسک — بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے جنگجو 10 دن کی تیز ترین پیش قدمی کے بعد شام کے دارالحکومت دمشق میں داخل ہوئے جس کے ساتھ ہی اسد خاندان کا 50 سالہ دورِ اقتدار بھی اختتام ہوگیا ہے۔ شامی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے ہیں اور کسی نامعلوم مقام پر چلے گئے ہیں۔
دمشق کی جانب باغیوں کی پیش قدمی کے بعد اتوار کو یہاں سے بھی شامی فورسز پسپا ہوگئی تھیں۔
باغی فورسز اور مسلح اتحادیوں نے گزشتہ دنوں شامی حکومت کے خلاف غیر معمولی حملوں کا آغاز کیا تھا جس میں حلب پر قبضے کے بعد وہ تیزی سے شامی فوج کو پسپا کرتے ہوئے حما، حمص اور پھر دمشق پہنچ گئے ہیں۔
سال 2011 میں شام میں خانہ جنگی ہونے کے بعد یہ حکومت کے مخالفین کی اب تک کی سب سے بڑی پیش قدمی تھی۔
شام میں حکومت ‘آپریشن ڈیٹرینس آف ایگریشن’ کا کوڈ نیم دیا گیا۔ اس حملے کی قیادت ہیئت تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس کر رہی ہے۔
یہ ایک مذہبی گروپ ہے جو شمال مغربی شام میں ادلب کے صوبے کا زیادہ تر علاقہ کنٹرول کرتا رہا ہے۔
پہلے اسے النصرہ فرنٹ کہا جاتا تھا اور یہ شام میں القاعدہ کی مرکزی متعلقہ تنظیم تھی تاہم 2017 میں اس نے القاعدہ سے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں۔
امریکہ کے ’واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی‘ کے سینئر فیلو ایرون زیلین کے مطابق اس گروپ کے موجودہ اہداف عالمی نہیں بلکہ مقامی نوعیت کے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں وہ شدت پسند ہیں۔ ان کی صفوں میں آج بھی غیر ملکی جنگجو شامل ہیں اور انہوں نے اسرائیل پر حماس کے سات اکتوبر کے حملوں میں بھی اس کا ساتھ دیا ہے۔‘‘
حماس کے 2023 میں کیے گئے اس حملے میں اسرائیل کے 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور جس کے بعد غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی سے شروع ہونے والی جنگ ایک سال بعد بھی جاری ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ایچ ٹی ایس کے پاس 30 ہزار جنگجو ہیں جن میں سے زیادہ تر شمال مغربی شام میں موجود ہیں۔
زیلین کے مطابق ایچ ٹی ایس ان کے نزدیک ان سیاسی جہادیوں میں شامل ہیں جو داعش اور القاعدہ کی طرح ہر اقدام اپنی عقائد و نظریات کے تحت نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ یہ گروپس اپنے فیصلوں میں سیاسی اہداف کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن وہ اس کے باوجود جہاد کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں اور اس طرزِ عمل کی جھلک حالیہ لڑائی میں بھی نظر آتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’میں جس انداز سے اس معاملے کو دیکھتا ہو تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ واضح طور پر یہ عالمی جہاد سے ہٹ کر مقامی تنظیم بن گئی ہے۔‘‘
ترکیہ کے حمایت یافتہ باغی
شامی حکومت کا تختہ الٹنے والوں میں شامل دیگر گروپس میں سے ایک سیریئن نیشنل آرمی یا ایس این اے شامل ہے۔ یہ ترکیہ کے حمایت یافتہ مختلف مسلح گروپس کی سرپرست تنطیم ہے۔
ایس این اے دراصل شمال مغربی شام میں 2017 میں ترکیہ کی حمایت سے قائم ہونے والی عبوری حکومت کی مسلح فورس کے طور پر قائم ہوئی تھی۔ ایس این اے 2018 اور 2019 میں ترکیہ کی مدد سے کرد فورسز پر حملوں میں شریک ہوئی تھی۔
‘ایس این اے’ کے ساتھ منسلک کئی گروپس سخت گیر مذہبی نظریات رکھتے ہیں۔ گزشتہ برس، امریکہ کے محکمۂ خزانہ ایس این اے میں شامل دو اہم گروپس سلیمان شاہ بریگیڈ اور حمزہ ڈویژن پر پابندیاں عائد کر چکا ہے۔
ان گروپس کے خلاف یہ اقدام شمالی شام کے عفرین خطے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔
واشنگٹن میں قائم نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ سے منسلک کیرولائن روز کا کہنا ہے کہ ایچ ٹی ایس اور ایس این اے کے درمیان موجودہ تعاون بہت ٹھوس نہیں ہے۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے شمال مغربی شام میں پیدا ہونے والے حالات کے پس منظر میں شروع ہونے والی لڑائی میں دیر سے مداخلت کی ہے۔
تاہم یہ واضح ہے کہ شامی میں ہونے والی پیش قدمیبکے لیے انقرہ نے ایچ ٹی ایس اور این ایس اے کے درمیان مضبوط شراکت داری پیدا کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی ہے۔
حلب پر حملے کے بعد سے ایس این اے نے امریکہ کے حمایت یافتہ کرد قیادت میں منظم سرین ڈیموکریٹک فورسز یا ایس ڈی ایف کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔ ایس ڈی ایف صوبۂ حلب کے شمالی مضافات میں خاص طور پر تل رفعت کے آس پاس موجود ہے۔ ترکیہ ایس ڈی ایف کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔
کیرولائن روز کا کہنا ہے کہ مختلف ترجیحات ہی اس بات کا تعین کریں گی کہ ایچ ٹی ایس اور ایس این اے کے درمیان شراکت داری برقرار رہتی ہے یا نہیں۔
شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والے کئی دیگر گروپس بھی موجود ہیں۔ ان میں احرار الشام بھی شامل ہے جو اسلامسٹ گروپس کا ایک اتحاد ہے جو شام کی خانہ جنگی کی ابتدا ہی میں قائم ہو گیا تھا۔
ایک اور اسلامسٹ گروپ ‘نور الدین زنگی موومنٹ’ بھی ان حملوں میں شریک ہے۔ یہ گروپ 2014 میں حلب میں قائم ہوا تھا اور ایچ ٹی ایس سے قربی تعلقات رکھتا ہے۔
یہ اسٹوری میں شامل بیشتر معلومات وی او اے کردش سروس سے لی گئی ہے۔