|
اتوار کی صبح دمشق کی بدنام زمانہ جیل کی ایک تنگ و تاریک کال کوٹھری میں بشام برھوم کے دل کی دھڑکنیں ہر آہٹ پر تیز ہو رہی تھیں۔ یہ اس کی زندگی کا آخری دن تھا اور جیل کا عملہ اسے پھانسی گھاٹ تک لے جانے کے لیے آنے والا تھا۔
بشام کی عمر 63 سال ہے۔ وہ ایک مصنف ہے اور گزشتہ سات ماہ سے جیل میں تھا۔ اسے پھانسی کی سزا سنائی جا چکی تھی۔
جب قدموں کی آہٹ مزید قریب ہوئی اور چہرے نظر آنے لگے تو بشام کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کوٹھری کے دروازے پر جیل کے اہلکار نہیں تھے بلکہ بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے والے باغی تھے جو اسے آزاد کرانے آئے تھے۔
باغیوں نے صرف دس دنوں میں یک بعد دیگرے شام کے بڑے شہروں پر قبضہ کرنے کے بعد دارالحکومت دمشق پہنچ کر اسد خاندان کی نصف صدی پر پھیلی ہوئی حکمرانی کا خاتمہ کر دیا اور سیاسی قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے جیلوں کے دروازے توڑ دیے۔
بشام برھوم کے ساتھ ہزاروں قیدی آزاد ہوئے ہیں جن میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو 2011 میں شام کا تنازع شروع ہونے کے وقت سے لاپتہ تھے۔
رہائی پانے والے قیدی دمشق کی سڑکوں پر جشن منا رہے ہیں۔
دمشق کی گلیوں میں خوشی سے چلنے کے بعد بشام نے اے پی کو بتایا کہ قید ہونے کے بعد آج میں نے پہلی بار سورج دیکھا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں کل پھانسی چڑھنے والا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے نئی زندگی دی۔
بشام کو جیل سے اپنا موبائل فون نہیں ملا۔ اس نے بتایا کہ اب وہ اپنی بیوی اور بیٹیوں کو یہ اطلاع دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ زندہ ہے اور آزاد ہے۔
سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں رہائی پانے کے بعد بڑی تعداد میں قیدی خوشی سے ناچتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
شام کی جیلیں بھوک، اذیت اور پھانسیوں کا مرکز تھیں
شام کے جیل اپنے سخت اور غیر انسانی حالات کی وجہ سے بدنام رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں، سابق قیدیوں اور صورت حال سے آگاہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان جیلوں میں قیدیوں پر منظم انداز میں تشدد کیا جاتا تھا۔
شام کی انٹیلی جینس کے زیر انتظام دو درجن سے زیادہ حراستی مراکز کام کرتے تھے جہاں خفیہ طور پر پھانسیاں بھی دی جاتی تھیں۔
سن 2013 میں شام کے ایک فوجی نے منحرف ہونے کے بعد جیلوں کی 53 ہزار سے زیادہ تصویریں اسمگل کیں۔ انسانی حقوق کے گروپس کے مطابق ان تصویروں میں بیماری، بھوک اور بے پناہ تشدد کے واضح ثبوت موجود ہیں۔
لندن میں قائم ایک تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ پروگرام کی ایک ایسوسی ایٹ لینا خطیب کا کہنا ہے کہ اسد نے اپنا کنٹرول برقرار رکھنے اور سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے خوف کے کلچر کو پروان چڑھایا۔
دمشق کے شمال میں واقع صیدنایا نامی فوجی حراستی مرکز، عرف عام میں انسانی مقتل کے نام سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔ باغیوں نے اس جیل خانے کے دروازے توڑ کر بڑی تعداد میں عورتوں کو رہا کروایا جن میں کئی ایک کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے کئی دوسرے گروپس کا کہنا ہے کہ صیدنایا میں ہر ہفتے درجنوں لوگوں کو خفیہ طور پر قتل کر دیا جاتا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق 2011 سے 2016 کے درمیان اس قید خانے میں 13 ہزار کے لگ بھگ شامیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
برطانیہ میں قائم حکومت مخالف گروپ سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے ایک عہدے دار رامی عبدالرحمٰن نے بتایا ہے کہ اب تک دسیوں ہزاروں قیدیوں کو رہا کرایا جا چکا ہے۔
گزشتہ 10 دنوں کے دوران باغیوں نے حلب، حمص، حما اور دمشق سمیت کئی شہروں میں قیدیوں کو رہا کیا ہے۔
لوگ برسوں سے لاپتہ اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے ہیں
بشار الاسد کے فرار اور باغیوں کی آمد کے بعد ہزاروں شامی جیلوں اور سیکیورٹی مراکز کے باہر اس امید پر جمع ہیں کہ برسوں سے لاپتہ ان کے پیارے بھی ممکنہ طور پر آزاد ہونے والوں میں شامل ہوں گے اور ان سے آن ملیں گے۔
ان میں بسام مصری بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کے منتظر ہیں۔ ان کا بیٹا 2011 کی بغاوت کے بعد سے قید ہے۔ انہوں نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میری خوشی اس وقت مکمل ہو گی جب میں بیٹے کو دیکھوں گا۔
بسام کی طرح حبہ بھی اپنے بھائی اور بھابی کو تلاش کر رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ دونوں 2011 میں کار چوری ہونے کی رپورٹ کرنے گئے تھے۔ پھر اس کے بعد سے انہیں نہیں دیکھا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسد نے ہم سے ہمارے پیاروں کو چھین لیا۔ میری والدہ کا کزن بھی کب سے غائب ہے۔ ہم ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔
(اس خبر کی تفصیلات اے پی سے لی گئیں ہیں)