|
لاہور — پاکستان میں رواں سال سینٹرل سُپیرئیر سروسز (سی ایس ایس) 2025 کے امتحانات 2024 کے نتائج جاری کیے بغیر ہی لیے جا رہے ہیں جس سے اُمیدواروں میں بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے۔
پاکستان میں سی ایس ایس امتحانات فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے تحت لیے جاتے ہیں اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا امتحان سمجھا جاتا ہے جس میں میں شرکت کرنے والے طلبہ برسوں تیاری کرتے ہیں۔
اِنہی میں سے ایک سیالکوٹ کی طالبہ اقرا ارشد ہیں جنہوں نے 2024 میں سی ایس ایس کا امتحان دیا تھا اور وہ 2025 کے امتحانات میں بھی شریک ہوں گی۔
اُن کے بقول نتائج میں تاخیر سے اُنہیں 2025 کے اختیاری مضامین کے انتخاب میں مسائل کا سامنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سی ایس ایس میں چھ لازمی مضامین کے ساتھ چھ اختیاری مضامین کے امتحانات بھی ہوتے ہیں اور اِن اختیاری مضامین کو ہر طالبِ علم اپنی پسند، ٹرینڈ اور گزشتہ امتحانات کے حساب سے اختیار کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ایک طالبِ علم کسی ایک سال امتحان دیتا ہے اور وہ کسی بھی وجہ سے امتحان پاس نہیں کر پاتا تو وہ اپنی کمزوریوں اور مضامین میں کم حاصل کردہ نمبروں پر زیادہ توجہ دیتا ہے تا کہ وہ اگلی بار زیادہ بہتر تیاری سے امتحان میں بیٹھ سکے۔
اقرا کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال اختیاری مضامین میں اُنہوں نے انوائرمینٹل سائنسز کا مضمون رکھا تھا۔ اگر وہ اُس میں اچھے نمبر نہیں لے پا رہی ہیں کیوں کہ وہ ماضی میں سائنس کی طالبہ نہیں رہی ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اگر سی ایس ایس 2024 کا نتیجہ آتا تو وہ سی ایس ایس 2025 میں اِس مضمون کو تبدیل کر لیتیں۔
فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کے زیرِ اہتمام 15 فروری سے 21 فروری کو سی ایس ایس 2025 کے امتحانات ہوں گے۔
قواعد ضوابط کے مطابق کم از کم بیچلر لیول کی تعلیم اور 21 سال سے 30 سال تک کی عمر کے افراد سی ایس ایس امتحانات دینے کے اہل ہوتے ہیں۔
ہر طالبِ علم تین مرتبہ سی ایس ایس کا امتحان دے سکتا ہے۔ پاس کرنے کی صورت میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس، پولیس، فارن آفس، کسٹمز سمیت 12 مختلف محکموں میں اِن کی تعیناتی کی جاتی ہے۔
گھر والوں کی اُمیدیں اور اُمیدوار کی کشمکش
اقرا ارشد بتاتی ہیں کہ وہ 2022 سے سی ایس ایس کی تیاری کر رہی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی طالبِ علم تحریری امتحان پاس بھی کر لیتا ہے تو انٹرویو اور سائیکالوجیکل ٹیسٹ وغیرہ بھی پاس کرنے ہوتے ہیں حتمی نتائج آنے تک طلبہ کا بہت سے وقت لگ جاتا ہے۔
اقرا کہتی ہیں کہ “گھر والے امیدیں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ بچہ پڑھنے گیا ہوا ہے اور وہ کب اسے ایک سی ایس پی افسر بنا دیکھیں گے۔ والدین بچوں پر مالی وسائل کے ساتھ ساتھ جذبات بھی لگا رہے ہوتے ہیں۔ طالبِ علم خود بھی ایک کڑی کشمکش سے گزر رہا ہوتا ہے۔”
خیال رہے کہ سی ایس ایس 2024 کے امتحانات کا انعقاد گزشتہ سال فروری میں کیا گیا تھا اور ابھی تک فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کی جانب سے نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
کمیشن کی جانب سے 2025 میں سی ایس ایس امتحابات کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے اور پہلا پیپر 15 فروری کو ہو گا۔
یہ کہانی صرف ایک طالبہ کی نہیں بلکہ رواں سال سینکڑوں ایسے طلبہ ہیں جنہیں اِن مسائل کا سامنا ہے۔
‘اُمیدوار کو پہلے تیاری کا موقع ملا جاتا تھا’
‘خطیب خان جو تین مرتبہ سی ایس ایس کے امتحابات دے چکے ہیں۔ اُنہوں نے اور اُن جیسے بہت سے طلبہ نے سی ایس ایس 2024 کے نتائج کا اعلان کیے بغیر سی ایس ایس 2025 کے امتحانات لینے کے خلاف عدالت سے بھی رُجوع کیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ گزشتہ سال سی ایس ایس کے امتحانات کے نتائج کا اعلان کیے بغیر ہی آئندہ سال کا امتحان لیا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کوئی بھی طالبِ علم تین سے چار سال سی ایس ایس امتحان کی تیاری کرتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں روایت رہی ہے کہ سی ایس ایس امتحان کے نتائج اور اگلے امتحان میں کم از کم دو ماہ کا وقت ہوتا ہے جس میں طالبِ علم اپنے مضامین کیے انتخاب کے لیے سوچ بچار کے بعد بہتر فیصلہ کر پاتا ہے۔
خطیب بتاتے ہیں کہ اِسی طرح لازمی مضامین میں جو مضمون نویسی یا پریسی کے پیپر میں نتائج کی صورت میں اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرنی ہوتی ہے کہ وہ کہاں پر کمزور ہے؟ اِس کمزوری پر قابو پا کر اُس طالبِ علم نے اچھے طریقے سے امتحان میں بیٹھنا ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے ایسے طالبِ علم ہیں جو 2025 کے امتحان میں آخری مرتبہ بیٹھیں گے۔ اگر وہ اِس سال امتحان میں نہیں بیٹھتے تو وہ زائدالعمر ہو جائیں اور ایسے طلبہ کو اپنے سابقہ نتائج کا کوئی علم نہیں ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سی ایس ایس امتحان لینے کے طریقے میں تبدیلی کی گئی ہے۔ 2022 سے فیڈرل پبلک سروس کمیشن امیدواروں کا معروضی سوالات کی طرز پر ابتدائی امتحان لیتا ہے اور اِس امتحان میں کامیاب ہونے والے طلبہ ہی کو مرکزی امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
معاملہ عدالت میں
گزشتہ سال امتحانات کے نتائج کے بغیر ہی رواں سال امتحانات کے انعقاد کا معاملہ عدالت تک بھی پہنچا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ایف پی ایس سی کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) اختر نواز ستی عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔
اُنہوں نے عدالت کو بتایا کہ نتائج میں تاخیر کی وجہ ادارے پر کام کا دباؤ اور گزشتہ سال سی ایس ایس اسپیشل کا انعقاد اور نتائج کی تیاری ہے۔
چئیرمین ایف پی ایس سی نے عدالت کو بتایا کہ اپریل کے آخری ہفتے میں سی ایس ایس 2024 کے امتحان کے نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اِس موقع پرا یڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال نے عدالت کو بتایا کہ قانون ایف پی ایس سی کو اجازت دیتا ہے کہ وہ گزشتہ برس کے امتحان کے نتیجے کا اعلان کیے بغیر آئندہ برس کا امتحان منعقد کر سکے۔
عدالت نے ایف پی ایس سی کے مؤقف پر ناراضگی کیا تا ہم بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ایس ایس 2025 امتحانات ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔
ایسی ہی ایک درخواست لاہور ہائی کورٹ میں بھی دائر کی گئی جہاں عدالت نے 2024 کے نتائج جاری کیے بغیر 2025 کا شیڈول جاری کرنے کے خلاف درخواست مسترد کر دی۔
دورانِ سماعت سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ رواں برس اپریل میں 2024 کا رزلٹ جاری کر دیا جائے گا۔ کچھ طلبہ کے لیے سسٹم کو روکا نہیں جاسکتا۔ سی ایس ایس 2025 کے لیے امتحانات کی تیاری مکمل ہے۔ پبلک سروس کمشن نے سی ایس ایس کے 2025 کے امتحان کے لیے شیڈول جاری کر دیا ہے۔
‘یہ امتحان باقی امتحانات سے مختلف ہے’
سی ایس ایس امتحان کی نجی شعبے میں تیاری کرانے والے پروفیسر عمیر اختر بتاتے ہیں کہ سی ایس ایس امتحانات کا کلچر بقیہ امتحابات کی نسبت قدرے مختلف ہے۔ اِس امتحان میں بہت سارے طلبہ اپنا پیسہ، وسائل، انرجی اور دیگر چیزیں لگاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر سی ایس ایس امتحان کے نتائج کا اعلان اکتوبر میں ہو جاتا ہے۔ رزلٹ آنے کے ایک مہنے بعد اگلے سی ایس ایس کے لیے درخواست جمع کرائی جاتی ہے۔ اِس عرصے میں اُمیدوار اپنی کمزوروں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
نتائج میں تاخیر کیوں؟
پروفیسر عمیر اختر کی رائے میں گزشتہ برس سی ایس ایس (اسپیشل) کی وجہ سے نتائج کے اعلان میں تاخیر ہوئی ہے۔ ایک روایت ٹوٹی ہے جو کہ مناسب نہیں۔ ہر سال پیپر ہوتے رہیں گے اور نئے بچے بھی آتے رہے ہیں گے۔ اسپیشل سی ایس ایس بھی ایک مکمل سی ایس ایس تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ملک بھر میں خالی آسامیاں پوری کرنے کے لیے سی ایس ایس اسپیشل امتحان کا بھی انعقاد کرنا پڑا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان پیپرز کی تیاری میں وقت لگتا ہے جن کے تمام پرچے انسان خود چیک کرتے ہیں یہ پرچے کمپیوٹر کی مدد سے چیک نہیں ہوتے کہ دو گھنٹوں میں نتائج آ جائیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ سی ایس ایس اسپیشل میں صوبہ پنجاب کے علاوہ بقیہ تین صوبوں کے 30 ہزار طلبہ شریک ہوئے تھے۔ صرف ایک پرچے کے ایک مضمون (essay) کی چیکنگ میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔