|
گوجرانوالہ _ یونان کے کوسٹ گارڈز نے تارکینِ وطن کی تلاش کے لیے سمندر میں کیا جانے والا ریسکیو آپریشن ختم کر دیا ہے اور کہا ہے کہ لاپتا افراد کو اب مردہ تصور کیا جائے۔
یونان کے قریب 13 اور 14 دسمبر کی درمیانی شب کشتی الٹنے کے واقعے میں ہلاک و لاپتا ہونے والے بیشتر تارکینِ وطن کا تعلق پاکستان سے ہے۔
یونان میں پاکستان کے سفارت خانے سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ ریسکیو آپریشن روک دیا گیا ہے کیوں کہ اب سمندر میں موجود کسی شخص کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں۔
کشتی حادثے میں جان گنوا دینے والے افراد کی مجموعی تعداد کے حتمی اعداد و شمار تو سامنے نہیں آسکے۔ البتہ زندہ بچ جانے والے افراد کے بیانات کی روشنی میں مرنے والوں کی تعداد 35 سے 40 تک ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے حال ہی میں اُن پانچ پاکستانیوں کے مرنے کی تصدیق کی تھی جن کی لاشیں سمندر سے نکالی گئیں۔ البتہ 47 زندہ بچ جانے والے افراد کی فہرست بھی جاری کی گئی لیکن جو افراد لاپتا ہیں اس بارے کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے تھے۔
وسطی پنجاب کے اضلاع منڈی بہاؤالدین، گجرات، نارووال، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور وزیر آباد کے ان گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے جن کے رشتہ دار یورپ جانے کی خواہش لیے لیبیا سے کشتی میں سوار ہوئے اور پھر حادثے کے بعد اب ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
منڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ کے گاؤں ہیلاں سے تعلق رکھنے والے نوجوان فہد خالد بھی متاثرہ کشتی میں سوار تھے۔ جن کی غائبانہ نماز جنازہ اد کر دی گئی ہے جس میں اہلِ علاقہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
فہد خالد کے بھائی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں حکومت پر افسوس ہے کہ وہ فہد کی لاش تلاش کرنے میں ناکام رہی۔
ایک لاپتا نوجوان عبدالرحمان ولد شفیق کے بھائی کا کہنا ہے کہ وہ کیسے یقین کر لیں کہ ان کا بھائی اس دنیا سے چلا گیا۔ کیا یونان کی حکومت سمندر سے لاشیں نہیں نکال سکتی یا پھر معاملہ کچھ اور ہے۔
انسانی اسمگلروں کے خلاف آپریشن
یونان کشتی حادثے کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے وسطی پنجاب کے اضلاع میں انسانی اسمگلروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کردی ہے۔
کشتی حادثے میں جن پانچ افراد کی لاشیں مل گئی ہیں ان کے ہلاکت کے مقدمات تھانہ ایف آئی اے گوجرانوالہ میں درج کرلیے گئے ہیں۔
ایف آئی آرز میں 1979 کے انسانی اسمگلنگ ایکٹ کی دفعات 17 اور 22 اور 2018 میں منظور ہونے والے غیرقانونی تارکینِ وطن اور انسانی اسمگلنگ ایکٹ کی دفعات تین اور چھ لگائی گئی ہیں۔ ان دفعات کے تحت انسانی اسمگلنگ میں ملوث ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر سات سے پندرہ سال تک قید ہوسکتی ہے۔
ایف آئی اے کی مختلف ٹیموں نے کم از کم پانچ افراد کو حراست میں بھی لے لیا ہے جن پر انسانی اسمگلروں یا ایجنٹوں کی سہولت کاری کا الزام ہے۔
مختلف دیہات کا دورہ کر کے مرنے والے یا لاپتا افراد کے ورثا سے ملاقاتیں کرنے والے ایف آئی اے کے تفتیشی افسران کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے حادثے کے باوجود متاثرہ افراد قانونی معاملات میں تعاون نہیں کر رہے اور مقدمات کے اندراج میں دلچسپی نہیں لے رہے۔
ایف آئی اے افسران کے مطابق انسانی اسمگلرز لواحقین سے رابطہ کر کے انہیں اس شرط پر کچھ رقم لوٹانے پر قائل کر لیتے ہیں کہ وہ ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کریں گے۔ ایسے میں لواحقین سوچتے ہیں کہ مرنے والا تو مر گیا اب وہ رقم کیوں گنوائیں۔
لیبیا انسانی اسمگلنگ کا مرکز
جب سے ایران کے راستے غیرقانونی بارڈر کراسنگ کا سلسلہ بند ہوا ہے۔ انسانی اسمگلروں نے لیبیا کا نیا روٹ تلاش کرلیا ہے۔
یونان، اٹلی یا یورپ کے دوسرے ممالک جانے کے خواہش مند نوجوانوں کو پہلے وزٹ ویزہ پر پاکستان سے دبئی یا مصر لے جایا جاتا ہے، جہاں سے لیبیا بھجوا دیا جاتا ہے۔ لیبیا تک پہنچنے اور یہاں قیام و طعام وغیرہ کا خرچہ پانچ سے سات لاکھ روپیہ آتا ہے۔ جس کے بعد انسانی اسمگلرز اپنے کلائنٹس کو لیبیا سے بذریعہ کشتی یونان یا اٹلی بھجوا دیتے ہیں۔
لیبیا میں انسانی اسمگلروں نے کچھ سالوں سے باقاعدہ کاروبار شروع کر رکھا ہے اور وہ ایک شخص کے پانچ ہزار ڈالرز معاوضہ لیتے ہیں۔ یوں ایک شخص کو غیرقانونی راستوں سے یورپ بھجوانے کا خرچہ 20 سے 22 لاکھ روپیہ آتا ہے۔ لیکن انسانی اسمگلرز یا ایجنٹ اوسطاً 35 لاکھ روپے لے رہے ہیں۔
لیبیا میں غیرقانونی تارکینِ وطن کا اس قدر رش ہے کہ لوگوں کو کشتی کے سفر کے لیے دو، دو ماہ تک کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تیرہ دسمبر کی شب یونان کے قریب جو کشتی الٹی اس میں زندہ بچنے والے پاکستانی نوجوانوں نے یہی بیانات دیے کہ وہ دو ماہ تک لیبیا کے سیف ہاؤس میں رہے تھے جہاں انہیں دن میں صرف ایک وقت کا کھانا دیا جاتا تھا۔
متاثرین کے بیانات کے مطابق لیبیا میں اب بھی کم و بیش پانچ ہزار پاکستانی موجود ہیں جو کہ یورپ جانے کے خواہش مند ہیں اور انہیں مختلف پاکستانی اور لیبیا کے ایجنٹوں نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان سے یہ لوگ قانونی طور پر ویزہ لے کر دبئی یا مصر اور پھر وہاں سے لیبیا پہنچتے ہیں جس کے بعد ان کا غیر قانونی سفر شروع ہوتا ہے۔
خواتین اور بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے ادارے ہیومن ویلفیئر فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن ثریا منظور کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو اس بات کا نوٹس لینا چاییے کہ انسانی اسمگلنگ کے لیے کمسن بچے کیسے ملک سے باہر گئے۔
انہوں نے کہا کہ کشتی حادثے کے بعد جو پانچ لاشیں سمندر سے ملیں، ان میں دو نابالغ پاکستانی ہیں۔
ثریا منظور کے مطابق افسوس کی بات ہے کہ نئی نسل کس طرف جا رہی ہے۔ حکمرانوں کو اس بات کا بالکل بھی ادراک نہیں ہو رہا کہ نوجوان ہر قیمت پر ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔