|
کراچی _ جعفر ایکسپریس پر حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب بلوچستان پہلے ہی شورش اور بغاوت کی ایک نئی لہر سے دوچار ہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شورش پہاڑوں اور دیہات سے نکل کر شہروں اور شاہراہوں پر آ گئی ہے۔
بلوچ عسکریت پسندی پر نظر رکھنے والے ماہرین کےمطابق یہ حملے صرف عسکریت پسند گروپس کی بدلتی حکمتِ عملی سے متعلق نہیں بلکہ اس سے کئی دیگر پہلوؤں کی بھی نشان دہی ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ان میں سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ بلوچ عسکریت پسند گروپس کی قیادت اب ایسے افراد کی جانب منتقل ہو رہی ہے جو متوسط طبقے اور شہری پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک یہ تبدیلی جنگجوؤں کی حکمتِ عملی پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔
قبائلی سرداروں کی قیادت میں عسکریت پسندی
پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی بلوچستان میں مزاحمت کا آغاز ہوگیا تھا۔ خان آف قلات کے بھائی آغا عبد الکریم نے ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی مخالفت کرتے ہوئے مسلح مزاحمت شروع کردی تھی جو مارچ 1948 میں شروع ہونے کے چند ماہ بعد ہی ختم ہو گئی تھی۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار انور ساجدی کا کہنا ہے یہ شورش بلوچ عوام کے لیے وفاق کے ساتھ تصادم کا پہلا تجربہ ثابت ہوا اور ان کے بقول یہ شورش زیادہ منظم نہیں تھی اور صرف قلات کے مخصوص علاقوں تک محدود رہی۔
پاکستان میں 1958 میں نافذ ہونے والے پہلے مارشل لا کے بعد ایک بار پھر بلوچستان میں مسلح مزاحمت کا آغاز ہوا۔ اس بار یہ جدوجہد ون یونٹ اور مارشل لاکے خلاف تھی۔
ون یونٹ کے تحت اس وقت کے مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو ایک انتظامی یونٹ بنا دیا گیا تھا۔
اس مزاحمت کی قیادت خان آف قلات کے خاندان سے تعلق رکھنے والے نواب نوروز خان کر رہے تھے۔ یہ مسلح مزاحمت ایران کی سرحد کے قریبی علاقوں اور کوئٹہ کے نواح میں جاری رہی۔
تاہم 1960 کے اوائل میں نواب نوروز خان نے وفاقی حکومت کی جانب سے ون یونٹ ختم کرنے اور ہتھیار اٹھانے والوں کے لیے عام معافی کی یقین دہانی کے بعد لڑائی ترک دی۔
انور ساجدی کے مطابق مقدس قرآن پاک کی ضمانت پر نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو پہاڑوں سے نیچے بلایا گیا، لیکن معاہدے کے برعکس انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
نواب نوروز خان کے بیٹوں اور ساتھیوں کو طویل قید کے بعد حیدرآباد میں پھانسی دی گئی اور ان کی سزائے موت کو بعدازاں عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔
مزاحمت کا تیسرا دور
بلوچستان کی تاریخ پر نظر رکھنےو الے تجزیہ کار انور ساجدی کے مطابق بلوچوں کی مسلح مزاحمت کا تیسرا دور 1973 سے 1977 تک ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو ںے 1973 میں بلوچستان اور سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں نیشنل عوامی پارٹی کی صوبائی حکومتیں برطرف کردیں جس کے بعد جھالاون اور مری بیلٹ میں گوریلا جنگ شروع ہوگئی۔
بھٹو دور میں نیپ رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا جن میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل، اور خیر بخش مری شامل تھے۔ ان رہنماؤں کے خلاف حیدرآباد سازش کیس بنایا گیا۔
بھٹو حکومت نے مری اور جھالاوان کے علاقوں میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا جسے چمالانگ آپریشن بھی کہا جاتا ہے۔
انور ساجدی کہتے ہیں کہ اس آپریشن میں کوبرا ہیلی کاپٹروں نے گوریلا کیمپوں اور مری آبادیوں پر حملے کیے جس کے بعد بلوچستان ایک ایسے تنازع میں دھنستا گیا جس کے اثرات آج تک برقرار ہیں۔
ان کے بقول اس آپریشن نے بلوچوں کے دل و دماغ میں ریاست کے خلاف بداعتمادی اور نفرت کو مزید گہرا کیا۔اس دوران بابو شیر محمد مری اور میر ہزار خان رمکانی نے “فراری کیمپوں” کے ذریعے بلوچ مزاحمت کو فعال رکھا۔
سن 1977 میں جب پاکستان میں جنرل ضیاءالحق نے مارشل لا نافذ کرکے اقتدار سنبھالا تو آتے ہی انہوں نے بلوچستان میں عام معافی اور حیدرآباد سازش کیس ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
ماہرین کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں بلوچستان کے حالات قدرے پُرامن رہے ایک اور فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف کے دور میں نواب اکبر بگٹی کے خلاف ہونے والے آپریشن نے بلوچ عسکریت پسندی کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔
نواب اکبر بگٹی کے بعد بلوچ عسکریت پسندی
جنوری 2005 میں بلوچستان کے ڈیرہ بگٹی میں پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ(پی پی ایل) کی گیس فیلڈ میں کام کرنے والی ایک ڈاکٹر کے مبینہ ریپ سے جنم لینے والے تنازع کے بعد حالات کشیدہ ہونا شروع ہوئے۔
اس دوران بگٹی قبیلے کی جانب سے گیس فیلڈ پر حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ تاہم 14 دسمبر 2005 کوہلو کے دورے کے موقعے پر جب پرویز مشرف کے قافلے پر حملہ ہوا تو کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔
اس حملے کے بعد 2006 کے اوائل میں پاکستان کی فوج نے ڈیرہ بگٹی پر بمباری کی۔ اس کارروائی کے بعد نواب اکبر بگٹی ڈیرہ بگٹی کی پہاڑیوں میں روپوش ہوگئے۔ وہیں 26 اگست 2006 کو ہونے والے ایک فوجی آپریشن میں پُراسرار طور پر ان کی موت واقع ہوئی۔
انور ساجدی کے بقول اس واقعے نے بلوچوں اور ریاست کے کمزور رشتے کو بری طرح ٹھیس پہنچائی اور بلوچستان میں ایک نئی شورش کو بھڑکایا۔
ان کے نزدیک نواب اکبر بگٹی کے قتل سے جنم لینے والی شورش کی اس نئی لہر میں 2009 کے بعد شدت آنا شروع ہوئی اور اب یہ ایک منظم گوریلا مزاحمت کی شکل اختیار کرگئی ہے۔
سنگاپور میں مقیم ریسرچر عبد الباسط کے نزدیک اس وقت بلوچستان میں جاری عسکریت پسندی جنوبی ایشیا کی کامیاب ترین شورش شمار ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ باغیوں کے پاس حکمتِ عملی، مقامی حمایت اور محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جو ایک کامیاب بغاوت کے لیے ضروری عناصر ہیں۔
قیادت میں تبدیلی
ماہرین کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ بلوچ سوشل اسٹرکچر تبدیل ہوا ہے جس کے آثار مسلح مزاحمت کی قیادت میں آنے والی تبدیلی سے بھی نمایاں ہوتے ہیں۔
بلوچ مسلح مزاحمت پر نظر رکھنے والے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی قیادت قبائلی سرداروں کے ہاتھ سے نکل کر متوسط طبقے کے ہاتھ میں چلی گئی ہے ان تنظیموں کے اسٹرکچر میں قبائلیت کے بجائے اب بلوچ قوم کی شناخت کا احساس زیادہ اہم نظر آتا ہے۔
سینئر تجزیہ کار انور ساجدی کے مطابق 19 ویں صدی میں برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ رابرٹ سینڈمین نے قبائلی بلوچستان کے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کو منظم کیا تھا۔ اس کا ماڈل قبائلی سرداروں اور نوابوں پر مبنی تھا جنہیں ریاست کی طرف سے اختیارات دیے گئے تھے۔ لیکن موجودہ شورش نے اس پرانی ترتیب کو چیلنج کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔
محقق عبد الباسط کا کہنا ہے کہ اس وقت بلوچ عسکریت پسندی ایسے لوگوں کے پاس ہے جسے “سوشل گریوٹی بیسڈ لیڈرشپ” یا سماجی سطح پر پائے جانے والے رشتوں سے جنم لینے والی قیادت کہا جاتا ہے۔ ان کے بقول یہ روایتی قبائلی قیادت سے مختلف ہے۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ ڈاکٹر اللہ نذر، بشیر زیب اور بنگلزئی سمیت دیگر گروانڈ بیسڈ لیڈرشپ بلوچ پولیٹیکل یا قبائلی اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ وہ بلوچستان کے لوئر مڈل کلاس کی نمائندگی کرتے ہیں۔
سینئر تجزیہ نگار اور 70 کی دہائی کی مسلح جدوجہد میں عملی حصہ لینے والے میر محمد علی تالپور کہنا ہے کہ سماجی تبدیلیوں سے بہت سی تبدیلیاں آتی رہی ہے لیکن یہ تمام مزاحمت صرف بلوچ مزاحمت ہی کہلاتی ہے۔
وہ اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ ماضی کی بلوچ مسلح مزاحمتیں مکمل طور پر قبائلی تھیں۔
ان کے بقول شہزادہ ابوالکریم کی مزاحمت میں بھی تعلیم یافتہ افراد شامل تھے۔ 1973 کی شورش میں بھی شہری کیڈر اور پڑھے لکھے لوگ پیش پیش تھے۔
ان کے نزدیک قبائلی یا متوسط طبقے کی بنیاد پر مزاحمت کی درجہ بندی کرنا گمراہ کن ہے۔
علاوہ ازیں بلوچ عسکریت پسندی کی تاریخ کے ماہرین کا کہنا جنرل شیروف کے نام سے مشہور شیر محمد مری اور نواب خیر بخش مری کی منظم کی گئی مزاحمت بھی بلوچ قومیت کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے نظریات سے جڑی تھی۔
خواتین کی مسلح حملوں میں شرکت حالیہ برسوں کے دوران بلوچ عسکریت پسندی میں ایک اور بڑی تبدیلی ہے۔
سینئر تجزیہ نگار قمر چیمہ کا کہنا ہے کہ بلوچ عسکریت پسندی اور سیاسی مزاحمت میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی شمولیت نئی پیش رفت ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ یہ تنازع صرف وسائل تک محدود نہیں بلکہ شناخت اور خودمختاری کی جنگ میں تبدیل ہو رہا ہے۔
ان کے بقول خواتین کی شمولیت سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ یہ لڑائی، جذباتی اور ذاتی نوعیت اختیار کر چکی ہے جس کی بنیاد مظالم، ناانصافیاں، اور ذاتی نقصان ہے۔
بیرونی مدد کا تاثر؟
محقق عبد الباسط کے مطابق ماضی میں کالعدم مسلح تنظیمیں گیس پائپ لائنز اور ریلوے ٹریکس جیسی بنیادی تنصیبات کو نشانہ بناتی تھیں لیکن اب ان حملوں کا دائرہ ہائی ویز اور شہری علاقوں تک پھیل چکا ہے۔
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق کراچی ایئرپورٹ حملے، مختلف اضلاع میں بیک وقت کارروائیاں اور حال میں جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنانے جیسی کارروائیوں سے بلوچ عسکریت پسند گروپس کی انٹیلی جینس اور آپریشنل صلاحیتوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
پاکستان کی حکومت الزام عائد کرتی آئی ہے کہ ان گروپس کی بڑھتی ہوئی صلاحیتیں انہیں حاصل غیر ملکی امداد کی وجہ سے ہیں۔
سابق انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان اور ریاستی امور کے ماہر طارق کھوسہ کے مطابق بلوچ کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کو بیرونی عناصر کی واضح حمایت حاصل ہے جو ایک تشویش ناک پہلو ہے۔
تاہم میر محمد علی تالپور بلوچ عسکریت پسندی کا موازنہ دنیا کے دیگر خطے میں چلنے والی تحریکوں سے کرتے ہیں۔
ان کے نزدیک آئرلینڈ میں تحریک شہری نوعیت کی تھی، کرد تحریک مختلف مراحل میں علاقائی اور عالمی طاقتوں سے متاثر رہی جب کہ بلوچ تحریک اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ خود انحصاری اور خود کفالت پر مبنی ہے۔
برطانیہ میں شامل شمالی آئرلینڈ کو آزاد کرا کر متحدہ آئرلینڈ بنانے کے لیے آئرش ری پبلکن آرمی نے 1960 کی دہائی میں مسلح تحریک شروع کی تھی۔ جب کہ ترکیہ، عراق، شام اور ایران میں پھیلے کردوں کے حقوق کے لیے بھی ان ممالک میں مسلح تنظیمیں اور تحریکیں کام کرتی رہی ہیں۔
چیلنجز کیا ہیں؟
محقق عبد الباسط کا کہنا ہے کہ ریاست اس وقت دفاعی پوزیشن پر ہے اور اس کے اقدامات مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔
ان کے بقول گزشتہ ایک ڈیڑھ سال میں حکومت کی جانب سے کیے گئے تمام اقدامات، جیسا کہ عزمِ استحکام یا چینی منصوبوں کے تحفظ کے لیے آپریشنز بڑے نتائج نہیں لا سکے ہیں۔
تجزیہ کار قمر چیمہ کے مطابق موجودہ حالات میں ریاست نے بعض مقامات پر کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن یہ کامیابیاں عارضی نوعیت کی ہیں۔
ان کے بقول اصل مسئلہ آئیڈیالوجی اور مائنڈ سیٹ کا ہے جو انسرجنسی کو تقویت دیتا ہے، جب تک اس کا مقابلہ نہیں کیا جاتا تو یہ چیلنج بھی برقرار رہے گا۔
ریاست کی حکمت عملی پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق آئی جی پولیس طارق کھوسہ کا کہنا تھا کہ طاقت کا استعمال ہمیشہ عارضی نتائج دیتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تشدد صرف مزید تشدد کو جنم دیتا ہے۔ہماری ریاست عسکریت پسندوں کے میدان میں ان کے طے کردہ اصولوں پر کھیل رہی ہے جو ایک بڑی غلطی ثابت ہوسکتی ہے۔
نوجوانوں کا کردار
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے ریاستی فیصلہ سازوں کو بلوچ مسلح مزاحمت میں نوجوان کے بڑھتے کردار کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
طارق کھوسہ کا کہنا ہے کہ جلد یا بدیر مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔
انور ساجدی کے مطابق مسنگ پرسنز کا مسئلہ، عوامی ناراضگی اور اقتصادی حکمت عملی کا فقدان وہ بنیادی عوامل ہیں جو شورش کو ہو ادے رہے ہیں۔
طارق کھوسہ کہتے ہیں کہ ریاست کو مایوس نوجوانوں اور دہشت گردوں میں فرق کرنا ہوگا۔ ان دونوں کے ساتھ مختلف رویہ اپنانا ہوگا تاکہ تشدد کے دائرے سے باہر نکل کر سیاسی حل کی جانب بڑھا جا سکے۔
مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے سے متعلق میر محمد علی تالپور کہتے ہیں کہ یہ اسی وقت ممکن ہوتے ہیں جب مخالفین رعایت دینے کے لیے تیار ہوں۔
‘پاپولر انسرجنسی’
جنگی تنازعات پر تحقیق کرنے والے ماہر محمد فیاض کے مطابق بلوچستان میں جاری حالیہ شورش کے کچھ منفرد پہلو ہیں جو اسے دنیا کی دیگر بغاوتوں سے الگ کرتے ہیں۔
ان کے مطابق یہ صرف ایک عسکری یا دہشت گردی کی تحریک نہیں ہے بلکہ ایک “پاپولر انسرجنسی” ہے جسے حاصل عوامی حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔
محمد فیاض کا کہنا ہے کہ ریاست کے پاس اس شورش کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی قوت اور وسائل تو ہیں لیکن اصل جنگ سافٹ پاور اور بیانیے کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ شورش کرنے والے گروپس اور ریاست کے درمیان اصل مقابلہ یہ ہے کہ کون لوگوں کو اپنے مؤقف کے لیے قائل کرتا ہے۔
محمد فیاض کا موقف ہے کہ اگر عسکریت پسند کسی علاقے پر کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو ریاست اپنی فضائی قوت یا دیگر وسائل کے ذریعے انہیں ختم کر سکتی ہے لیکن ایسی ہر کارروائی اپنے اثرات رکھتی ہیں جن سے نمٹنا ہی اصل چیلنج ہے۔