|
اسرائیلی فوج نے جمعے کے روز کہا کہ وہ ان رپورٹس کا جائزہ لے رہی ہے کہ حماس نے ایک اور لاش ریڈ کراس کے حوالے کی ہے اور اسکا دعویٰ ہے کہ وہ یرغمال شیری بیباس کی ہے۔اس سے قبل حماس کے ایک عہدے دار نے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ غلطی سے شیری بیباس کی لاش، مارے جانے والے دیگر افراد کی لاشوں میں شامل ہو گئی ہو جو اسرائیلی بمباری کے بعد غزہ کے ملبے میں دب گئی تھیں۔
فوجی ترجمان لیفٹیننٹ کرنل نداو شوشانی نے X پر کہا، “شیری کے حوالے سے رپورٹس کے بعد، ان کا فی الحال جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اور آئی ڈی ایف (فوج) کے نمائندے خاندان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔”
متعدد اسرائیلی ذرائع ابلاغ نےبھی اطلاع دی ہے کہ ریڈ کراس نے غزہ کی پٹی میں حماس سے ایک لاش تحویل میں لی ہے۔
اس سے قبل جمعہ کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس یرغمال شیری بیباس کی لاش دینے میں ناکامی کی “قیمت ادا کرے گا” جیسا کہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے تحت طے کیا گیا ہے۔
ایک ویڈیو بیان میں نیتن یاہو نے کہا کہ “ہم اپنے تمام زندہ اور مردہ یرغمالوں کے ساتھ شیری کو گھر لانے کے عزم کے ساتھ کام کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ حماس معاہدے کی اس ظالمانہ اور بدی پر مبنی خلاف ورزی کی پوری قیمت ادا کرے۔”
حماس کےعہدے دار نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر کہا کہ یہ ممکن ہے کہ شیری بیباس کی لاش غلطی سے ملبے میں دب جانے والی دیگر لاشوں میں مکس ہو گئی ہو۔
عہدے دار کا مزید کہنا تھا کہ ان کا گروپ اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔
یہ مسئلہ اسرائیل کی جانب سے اس بیان کے بعد سامنے آیا تھاکہ جمعرات کو حماس نے جو لاشیں حوالے کیں تھیں اور ان میں سے ایک شیری بیباس نہیں تھی، جیسا کہ عسکریت پسندوں نے دعوی ٰ کیا تھا۔
اسرائیل کی فوج نےے جمعے کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ دہشت گرد تنظیم حماس کی جانب سے خاتون یرغمال کی لاش حوالے نہ کرنا سنگین خلاف ورزی ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت یرغمالوں اور قیدیوں کا تبادلہ جاری ہے۔ معاہدے کے تحت جمعرات کو حماس نے پہلی مرتبہ چار یرغمالوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کی تھیں۔
حماس نے کہا تھا کہ یرغمالوں کی لاشوں میں خاتون شیری بباس اور ان کے دو بیٹوں ایریل اور کفر کی لاشیں ہیں جب کہ چوتھی لاش اوڈیڈ لیف شیٹس کی ہے۔
چاروں لاشیں اسرائیل پہنچنے پر اسرائیلی حکام نے فوری طور پر 83 سالہ لیف شیٹس کی لاش کی شناخت کر دی تھی۔ تاہم جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فرانزک میڈیسن نے دو بچوں کی لاشوں کی شناخت کر لی ہے لیکن بچوں کی ماں کی لاش ان میں نہیں ے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق خاتون کی لاش نامعلوم ہے جس کی شناخت نہیں ہوئی۔
حماس نے چار یرغمالوں کی لاشیں حوالے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان میں سے تین کا تعلق بیباس خاندان سے ہے۔ جن میں سے ایک شیری بیباس اور دو اس کے چھوٹے بچوں کی باقیات ہیں، جب کہ چوتھا ایک معمر یرغمال تھا۔
بیباس کے بچوں کی شناخت کفیر اور ایریل کے طور پر ہوئی جب کہ معمر یرغمال کی لاش کو اوڈیڈ لیف شٹس کی تھی، جس کی تصدیق اسرائیل کے فرانسک ماہرین نے کی۔ جب کہ اسرائیلی عہدے داروں کا چوتھی لاش کے بارے میں کہنا تھا کہ وہ شیری بیباس نہیں تھی۔
اس کے ردعمل میں حماس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ غلطی سے بھیجی گئی فلسطینی خاتون کی لاش اسے واپس کر دی جائے۔
حماس کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ ان کے عسکری گروپ نے نومبر 2023 میں ثالثوں کو بتایا تھا کہ وہ بیباس خاندان کی تین لاشیوں کو حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔
عہدے دار نے کہا کہ جس وقت ثالثوں کو یہ اطلاع دی گئی تھی، اس کے ساتھ ہی ایک بیان میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ بیباس فیملی کے ارکان اپنے اغواکاروں سمیت اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔
عہدے دار کا مزید کہنا تھا کہ نومبر 2023 میں ان کی لاشیں حوالے کرنے کی پیش کش کی تھی لیکن اس وقت اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے انکار کر دیا تھا۔
اسرائیل اور نیتن یاہو متعدد بار حماس کے اس دعوے کو مسترد کر چکے ہیں اور جمعے کو وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ فرانسک ٹیسٹوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ حماس کی قید میں بیباس خاندان کے بچوں کو سفاکانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا تھا اور وہ اسرائیلی فوج کی بمباری میں ہلاک نہیں ہوئے تھے۔
بیباس فیملی کے یہ دونوں لڑکے اپنی والدہ شیری کے ساتھ یرغمالوں کے بحران کی علامت بن چکے ہیں۔
غزہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔
اس حملے کے جواب میں اسرائیل کی شروع کی گئی کارروائیوں میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 48 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس تعداد میں 17 ہزار عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔
امریکہ، یورپی یونین اور دیگر کئی مغربی ممالک نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
(اس رپورٹ کی کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)