|
کوئٹہ—سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ 80 یرغمال مسافروں کو سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں سے رہا کروایا، رہا ہونے والوں میں 43 مرد، 26 عورتیں اور 11 بچے شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ باقی مسافروں کی با حفاظت رہائی کے لئے سیکیورٹی فورسز کوشاں ہیں اوردہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر کہا ہے کہ بولان میں تاحال سرچ آپریشن جاری ہے۔ جعفر ایکسپریس پر بزدلانہ حملہ ہماری قومی سلامتی پر حملہ ہے۔
اس سے قبل سرکاری سطح پر جاری ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ خون بہانے والوں کو زمین پر جگہ نہیں ملے گی، دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عوام خوفزدہ نہ ہوں، دشمنوں کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے تعاقب میں، بچ کر کوئی نہیں جائے گا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ علاقے میں سیکیورٹی فورسز کا سرچ آپریشن جاری ہے، آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ پوری قوم اپنی بہادر فورسز کے ساتھ کھڑی ہے، دہشت گردوں کی مکمل بیخ کنی کریں گے۔ ان کے بقول: جعفر ایکسپریس پر حملہ قومی سلامتی پر حملہ ہے، بھرپور جواب دیا جائے گا۔
بلوچستان میں مسافر ٹرین پر مسلح افراد کے حملے میں ڈرائیور زخمی ہوا ہے جب کہ 450 کے قریب مسافروں کو یرغمال بنائے جانے کی اطلاعات دی گئی تھیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضیٰ زہری کے مطابق ڈپٹی کنٹرولر ریلوے کوئٹہ محمد شریف نے بتایا ہے کہ جعفر ایکسپریس کوئٹہ سے پشاور جا رہی تھی کہ ڈھاڈر مشکاف اسٹیشن کے قریب ٹرین پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔
ان کے بقول یہ علاقہ سبی ریلوے اسٹیشن سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ہے۔
ڈپٹی کنٹرولر کا کہنا ہے کہ فائرنگ سے ٹرین ڈرائیور کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم اُس علاقے میں موبائل سگنل نہ ہونے اور وائرلیس سیٹ کام نہ کرنے کی وجہ سے ٹرین کے عملے سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرین میں 450 کے قریب مسافر سوار تھے جن کے ہمراہ سیکیورٹی اسکواڈ بھی موجود تھا۔
کوئٹہ میں ریلوے کے ایک سینئر عہدے دار محمد کاشف نے خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ “مسلح افراد نے 450 سے زیادہ مسافروں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ مسافروں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔”
دوسری جانب کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ٹرین پر قبضہ کرنے اور مسافروں کو یرغمال بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
بی ایل اے نے ایک بیان میں حملے میں فوج کے متعدد اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم پاکستانی فوج کی جانب سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
ڈپٹی کنٹرولر ریلوے کوئٹہ نے سیکیورٹی اہلکاروں کے ٹرین میں سفر کرنے کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
بی ایل اے نے اپنے بیان میں کہا کہ ریلوے ٹریک کو دھماکے سے تباہ کرنے کے بعد ٹرین پر قبضہ کیا گیا۔
بی ایل اے نے خبردار کیا کہ یرغمالوں کی بازیابی کے لیے کسی بھی آپریشن کے سنگین نتائج ہوں گے۔
ٹرین پر حملے کا واقعہ مقامی وقت کے مطابق دن ایک بجے کے قریب ضلع سبی کے اسٹیشن کے قریب پیش آیا۔ ٹرین صبح نو بجے کے قریب کوئٹہ سے پشاور کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ سبی کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
سبی کے ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹرین پہاڑوں میں ایک سرنگ کے سامنے رکی ہوئی ہے۔
بلوچستان میں رواں سال میں کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملوں میں شدت آئی ہے۔
فروری میں بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں جھڑپ کے دوران 18 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ بی ایل اے نے فروری میں ایک مسافر بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مسافروں کو اتار کر قتل کرنے ذمہ داری قبول کی تھی۔
اس سے قبل گزشتہ برس منظم حملوں کے نتیجے میں کم از کم 39 افراد ہلاک ہوئے تھے جس میں زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔
گزشتہ سال نومبر میں بی ایل اے نے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 14 اہلکاروں سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس رپورٹ کے لیے بعض معلومات ‘اے ایف پی’ سے لی گئی ہیں۔