تربت نیول بیس پر حملہ، کالعدم تنظیم بی ایل اے کا ذمہ داری کادعویٰ Leave a comment

  • تربت نیول بیس پر حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بی ایل اے کی مجید بریگیڈ نے قبول کی ہے۔
  • حملہ پیر کی شب تقربیاً 10 بجکر30 منٹ پر تربت شہر سے 12 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع نیول بیس پر کیا گیا۔ پولیس
  • 4 سے 6 کے قریب دہشت گروں نے نیول بیس میں داخل ہونے کی کوشش کی، ایف سی کے اسپیشل آپریشن ونگ، نیول ایس ایس جی اور دیگر فورسز نے دہشت گردوں کو پسپا کیا ہے، سکیورٹی ذرائع
  • مقامی انتظامیہ اور بلوچستان حکومت نے کسی قسم کے ہلاکتوں کی تاحال تصدیق نہیں کی۔

اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے شورش زدہ علاقے تربت میں کالعدم بلوچ عکسریت پسند تنظیم بلوچستان لیبریشن آرمی مجید برگیڈ نے حملہ کیا ہے۔

تربت پولیس کنڑول کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ واقعہ پیر کی شب تقربیاً 10 بجکر30 منٹ پر تربت شہر سے 12 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع نیول بیس پر دہشتگروں نے حملہ کیا ہے۔

اہلکار کے مطابق حملہ آوروں نے پہلے نیول بیس کے مین گیٹ سے داخل ہونے کی کوشش کی اس دوران علاقے سے دھماکوں اور شدید فائرنگ کی آوازیں آتی رہی۔

دھماکوں کی آواز کے بعد ٹیچنگ ہسپتال تربت میں ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی نافذ کی گئی۔

پولیس اور فورسز کی بڑی تعداد نیول بیس کے قریب پہنچی اور پورے علاقے کو قبضے میں لے لیا۔

تربت نیول بیس پر حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بی ایل اے کی مجید بریگیڈ نے قبول کی ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا کہ مجید بریگیڈکے افراد پیر کی شب دس بجے تربت میں نیول ائیر بیس پر حملہ کرکے داخل ہوئے۔

انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اب تک تین گھنٹے گذرنے کے باوجود دشمن کے درجن بھر سے زائد اہلکار ہلاک کرکے فدائین جانفشانی کے ساتھ لڑرہے ہیں۔

ان اطلاعات کی کسی ذریعہ سے تصدیق نہیں ہوئی۔

سیکورٹی فورسز کے ذرائع نے بتایا ہے کہ 4 سے 6 کے قریب دہشت گروں نے نیول بیس میں داخل ہونے کی کوشش کی جس کا مقابلہ کرتے ہوئے ایف سی کے اسپیشل آپریشن ونگ، نیول ایس ایس جی اور دیگر فورسز نے دہشت گردوں کو پسپا کیا ہے۔

تاہم مقامی ضلعی انتظامیہ اور بلوچستان حکومت نے کسی قسم کے ہلاکتوں کی تاحال تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔

فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں بحری تنصیبات اور حساس آلات کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا ہے۔جبکہ علاقے میں آپریشن کلئیرنس کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔

تربت کے مقامی لوگوں نے وائس آف امریکہ کو بتایاکہ تربت کے نواحی علاقے کے بس اڈے کے قریب سے پہلے دھماکوں اور بعد میں تقریباً 30 منٹ تک شدید فائرنگ کی آوازیں آتی رہی جس سے علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔

یاد رہے کہ سال 2017 میں پاکستان بحریہ نے تربت میں اپنا نیا اسٹیشن فعال کیا تھا۔

اس بیس کا مقصد پاکستان بحریہ کو نہ صرف وقت کے تقاضوں کے مطابق میری ٹائم سیکیورٹی آپریشنز میں مدد فراہم کرنا تھا بلکہ اسے سمندری دہشت گردی اور بحری قذاقی کی روک تھام کے لیے معاون قرار دیا گیا تھا۔

تربت کا شمار بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں ہوتا ہے جہاں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے ماضی میں بھی سیکورٹی فورسز پر مہلک حملے ہوتے رہے ہیں۔

اس سے قبل بلوچستان کے ساحلی علاقے گواد پورٹ کمپلیکس پر گزشتہ ہفتے عسکریت پسندوں کے حملے کے دوران سات حملہ آوروں سمیت آٹھ افراد ہلاک جب کہ دو زخمی ہو گئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بی ایل اے نے قبول کی تھی۔

سال 2018 میں بلوچستان کے جنوبی ضلع کیچ کے صدر مقام تربت میں میں سیکورٹی فورسز پر ایک حملے میں ایف سی کے چھ جوان ہلاک اور فوج کے ایک افسر سمیت 14 ایف سی اہلکار زخمی ہوئے تھے، جبکہ جوابی کاروائی میں چار حملہ آور بھی مارے گئے تھے۔

گزشتہ سال بھی تربت میں فرنٹئیر کور (ایف سی) کی گاڑی پر خاتون نے خودکش حملہ کیا جس سے باعث حملہ آوار سمیت دو افراد ہلاک جبکہ 3 زخمی ہوگئے۔



Supply hyperlink

Leave a Reply