‘بھارت چین کے اثرات کم کرنے کے لیے فرانس کا تعاون چاہتا ہے’

‘بھارت چین کے اثرات کم کرنے کے لیے فرانس کا تعاون چاہتا ہے’ Leave a comment

  • پیرس میں منعقدہ اجلاس میں بھارت کے وزیرِ اعظم، امریکہ کے نائب صدر اور دیگر ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
  • فرانس کے صدر کے ساتھ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا دنیا اے آئی کے دور میں ہے۔
  • مصنوعی ذہانت کے لیے ایک عالمی فورم کے قیام کی ضرورت ہے: نریندر مودی
  • یورپ خطے میں مصنوعی ذہانت کے فروغ کو آسان بنانے کے لیے ریگولیشن میں کمی کرے گا: ایمانوئل میکرون

نئی دہلی — بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پیرس میں منعقدہ ‘آرٹیفیشل انٹیلی جینس'(اے آئی) سمٹ میں مصنوعی ذہانت کے لیے ایک عالمی فورم کے قیام پر زور دیا ہے۔

پیرس میں منعقدہ دو روزہ اے آئی سربراہی اجلاس میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نریندر مودی نے منگل کو کہا کہ دنیا اے آئی کے دور میں ہے اور ایک ایسے عالمی فورم کے قیام کی ضرورت ہے جو مشترکہ اقدار کو برقرار رکھے، خطرات سے نمٹے، اعتماد پیدا کرے اور گلوبل ساؤتھ سمیت سبھی تک رسائی کو یقینی بنائے۔

انہوں نے کانفرنس سے خطاب میں اعتماد اور شفافیت کو فروغ دینے اور ڈیٹا کو کسی بھی تعصب سے بالاتر بنانے کے لیے ‘اوپن سورس سسٹمز’ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

نریندر مودی نے اے آئی کی اگلی سربراہ کانفرنس بھارت میں منعقد کرنے کی پیشکش کی جسے قبول کر لیا گیا۔

پیرس اجلاس میں امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس، چین کے نائب وزیرِ اعظم ڈنگ شیوئی شیانگ، کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو اور گوگل اور مائیکروسافٹ جیسے اداروں کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔

وزیرِ اعظم مودی کے مطابق اے آئی پہلے ہی ہماری سیاست، معیشت، سلامتی اور یہاں تک کہ معاشرے کی تشکیلِ نو کر رہی ہے۔ یہ انسانی تاریخ کے دیگر ٹیکنالوجی سنگِ میل سے مختلف ہے۔ یہ تیزی سے تریق کر رہی ہے اور اسے بھی تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ یورپ خطے میں مصنوعی ذہانت کے فروغ کو آسان بنانے کے لیے ریگولیشن میں کمی کرے گا۔ انہوں نے یورپ خاص طور پر فرانس میں سرمایہ کاری کی اپیل بھی کی۔

بعض مبصرین اے آئی کانفرنس کی شریک صدارت کرنے کے لیے بھارت کو مدعو کرنے کو مصنوعی ذہانت کے میدان میں اس کے بڑھتے کردار کے اعتراف کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

ان کے خیال میں چوں کہ مختلف شعبوں میں اے آئی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو رہی ہے۔ لہٰذا بھارت بھی اس کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔

‘فرانس اپنے اے آئی چیٹ بوٹ کے لیے بھارت میں مارکیٹ چاہتا ہے’

اس کانفرنس کو کچھ تجزیہ کار چین کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار مظہر حسنین کے مطابق بھارت میں امریکی اے آئی چیٹ بوٹ ‘چیٹ جی پی ٹی’ اور چینی چیٹ بوٹ ‘ڈیپ سیک’ کا استعمال بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔

ان کے مطابق چین اس شعبے میں ایک عالمی قائد کی حیثیت سے ابھر رہا ہے جس پر نئی دہلی میں تشویش پائی جاتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت اس میدان میں چین کے اثرات کو روکنے یا کم کرنے کے لیے فرانس کا تعاون چاہتا ہے۔

مظہر حسنین نے کہا کہ اے آئی کے سلسلے میں فرانس بھی بھارت میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ اپنے اے آئی چیٹ بوٹ کے لیے بھارت میں ایک مارکیٹ چاہتا ہے۔

‘چین کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی چیلنجز ہیں’

تجزیہ کار دویانس رستوگی نے ‘ون انڈیا’ ویب سائٹ پر اپنے تجزیاتی مضمون میں لکھا ہے کہ بھارت جلد ہی اپنا اے آئی لانے کی تیاری کر رہا ہے جو ان کے بقول چین کے ‘ڈیپ سیک’ سے بھی بہتر ہو گا۔ لیکن اس کے لیے بڑی سرمایہ کاری اور ریسرچ انفراسٹرکچری کی ضرورت ہو گی۔

ان کے خیال میں چین سے مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کے سامنے کئی چیلنجز ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بھارت چین کے مقابلے میں اے آئی پر کم خرچ کر رہا ہے۔ ریسرچ میں پیچھے ہے، ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی چینی کمپنیوں کے مقابلے میں پیچھے ہیں۔ اے آئی سے متعلق ڈیٹا سیکیورٹی اور اخلاقیات کے مسئلے پر اس نے ابھی کوئی پالیسی نہیں بنائی ہے جب کہ بھارت میں ہارڈ ویئر انفرا سٹرکچر کی بھی کمی ہے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی حکومت نے اے آئی کے بارے میں کئی بڑے اقدامات کیے ہیں جن سے بھارت میں اس شعبے میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔

ان کے بقول اس سلسلے میں کئی اسکیمیں بھی لائی گئی ہیں جس میں انڈیا اے آئی مشن بھی شامل ہے۔ اس میں دو ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اس مشن کو گزشتہ سال اپریل میں متعارف کرایا گیا تھا اور یہ اے آئی کو اپنانے پر تیزی سے توجہ مبذول کر رہا ہے۔

اسی طرح حکومت نے پانچ ارب روپے کے بجٹ سے اے آئی کی تعلیم کے لیے ایک نیا ‘سینٹر آف ایکسی لینس’بھی بنایا ہے۔

دویانش رستوگی کے مطابق بھارت کو اے آئی کے شعبے میں چین کے اثرات کم کرنے کے لیے کافی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت کے تھنک ٹینک ‘نیتی آیوگ’نے مختلف شعبوں میں اے آئی کو فروغ دینے کے لیے ایک فارمولہ تیار کیا ہے۔

نیتی آیوگ کے مطابق بھارت میں مالیاتی سروسز، ہائی ٹیک اینڈ ٹیلی کمیونی کیشنز، ٹرانسپورٹیشن، صحت، تعلیم، زراعت، اسمارٹ سٹیز، انفرا سٹرکچر، میڈیا اینڈ انٹرٹینمنٹ اور توانائی کے شعبوں میں اے آئی کے استعمال میں خاطر خواہ اضافے کا امکان ہے۔

حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق متعدد ریاستی حکومتوں نے سال 2024 میں اے آئی کا استعمال شروع کیا ہے۔ان ریاستوں میں گجرات، مہاراشٹر، تمل ناڈو، کرناٹک، آندھرا پردیش، تیلنگانہ، کیرالہ وغیرہ شامل ہیں۔

‘ڈیپ سیک کے سستا ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال بڑھ رہا ہے’

تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت میں آنے والے دنوں میں اے آئی کا بہت ز یادہ استعمال ہونے لگے گا۔

آئی ٹی کمپنی ‘بیٹر کامرس’ میں سولیوشن آرکیٹکٹ مسعود احمد کے مطابق چیٹ جی پی ٹی مہنگا اور ڈیپ سیک سستا اے آئی چیٹ بوٹ ہے۔ اس لیے ڈیپ سیک کا استعمال بھارت میں زیادہ ہو رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں اے آئی کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے استعمال سے مختلف شعبوں بالخصوص صحت وغیرہ میں غیر معمولی فائدہ ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اے آئی سے کم وقت میں کام لیا جا سکتیا ہے۔ اے آئی کوئی بھی دماغ والا کام کرنے میں انسانوں کے مقابلے میں بہت کم وقت لیتی ہے جس کی وجہ سے پیداواری صلاحیت بڑھتی ہے۔

لیکن ان کے بقول اس سے نقصانات بھی ہیں۔اس سے غیر ہنرمند افراد میں بے روزگاری بڑھے گی اور لوگوں کی ملازمتیں کم ہو جائیں گی۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اے آئی کو ایک انقلاب تصور کیا جانا چاہیے جو رفتہ رفتہ انسانی زندگی میں بہت زیادہ داخل ہو جائےگی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اے آئی ابھرتی ہوئی صنعتوں میں سے ایک ہے جو انسانی دماغ کے مدِمقابل بن رہی ہے۔ یہ ایسے مختلف کاروباری افعال انجام دیتی ہے جن میں انسانوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔



Supply hyperlink

Leave a Reply