|
کوئٹہ — بلوچستان کے ضلع کچھی علاقے میں عسکریت پسندوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے صوبائی اسمبلی کے رکن میر لیاقت لہڑی کے محافظوں سے اسلحہ چھین لیا۔
اتوار کو یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کوئٹہ سبی مرکزی شاہراہ پر عسکریت پسندوں نے ناکہ لگایا ہوا تھا اور رکنِ اسمبلی میر لیاقت لہڑی اپنی محافظوں کے ساتھ وہاں سے گزر رہے تھے۔ عسکریت پسندوں نے اس مقام پر دیگر گاڑیوں کو بھی روکا ہوا تھا۔
عسکریت پسندوں کے اس ناکے پر رکن اسمبلی کے تمام محافظوں نے ایک ایک کر کے اسلحہ ان کے حوالے کیا۔
اطلاعات کے مطابق عسکریت پسند رکنِ اسمبلی کے محافظوں سے اسلحہ لینے کے بعد قریبی پہاڑوں پر چلے گئے جب کہ سیکیورٹی حکام ان سے مقابلہ کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق سبی میں تبلیغی اجتماع ختم ہوا تھا جس کے شرکا کوئٹہ سبی شاہراہ سے اپنے اپنے علاقوں کی جانب جا رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بھی اپنے ذاتی گارڈز کے ہمراہ اسی اجتماع سے واپس آ رہے تھے۔
سبی میں تبلیغی اجتماع میں شرکت کے بعد کوئٹہ آنے والے ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایاکہ اتوار کی شام بولان میں پیپلز پارٹی کے رکن بلوچستان اسمبلی اور پارلیمانی سیکریٹری برائے ٹرانسپورٹ میر لیاقت لہڑی کے قافلے کو مسلح افراد نے روک لیا تھا جس کے بعد ان کو گاڑی سے اتار لیا گیا تھا۔
اس واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہیں جن میں نظر آ رہا ہے کہ مسلح افراد نے رکن اسمبلی کی گاڑی کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ میر لیاقت لہڑی اپنے گارڈز کے ہمراہ موجود ہیں۔
شاہراہ پر کئی عسکریت پسند بھی ہیں جن کے چہرے چھپے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک شخص رکنِ اسمبلی کے محافظوں سے اسلحہ جمع کر رہا ہے۔
ویڈیوز میں مسلح افراد راکٹ لانچرز اور دیگر بھاری اسلحے سے لیس نظر آ رہے ہیں۔
میر لیاقت لہڑی کے قافلے میں شامل ان کے ایک قریبی ساتھی نے بھی واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مسلح افراد نے میر لیاقت لہڑی اور ان کے ساتھیوں کو بولان میں اس وقت روکا جب وہ کوئٹہ کی جانب سفر کر رہے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلح افراد نے انہیں گاڑی سے اتارا۔ ان کا تعارف پوچھا اور مکمل تصدیق کے بعد انہیں جانے کی اجازت دی۔
بعد ازاں یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ رات گئے میر لیاقت لہڑی بحفاظت اپنے ساتھیوں اور محافظوں کے ہمراہ گھر پہنچ گئے ہیں۔
مچھ پولیس کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) پیر بخش بگٹی نےبھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کی کہ مسلح افراد نے قومی شاہراہ پر گرین ہوٹل، بی بی نانی اور پیر غیب کے مقام پر شام کو اس وقت ناکہ لگایا جب سبی میں تین روزہ تبلیغی اجتماع کے بعد بڑی تعداد میں لوگ کوئٹہ اور دیگر شہروں کی جانب واپس گھر جارہے تھے۔
ایس ایچ او مچھ نے دعویٰ کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے اطلاع ملنے پر ان مقامات کا گھیراؤ کرکے مسلح افراد کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔
پیر بخش بگٹی نے بتایا کہ اس مقام پر ایک راہ گیر ہلاک جب کہ پانچ زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں کو طبی امداد کے لیے مچھ کے سول اسپتال منتقل کیا گیا۔ ہلاک ہونے والے راہ گیر کی شناخت نبی داد کے نام سے ہوئی ہے جو کوئٹہ کے رہائشی تھے۔
پولیس افسر نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ شہری کس کی فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہوئے جب کہ نہ ہی انہوں نے یہ بتایا کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں عسکریت پسندوں کا کیا نقصان ہوا۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق سیکیورٹی فورسز اور مسلح افراد میں جھڑپ کے دوران بولان میں قومی شاہراہ سے گزرنے والے بعض راہ گیر فائرنگ کی زد میں آئے ۔
حکام نے بتایا کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور عسکریت پسندوں میں وقفے وقفے سےجھڑپیں ہوئیں جن کی زد میں مسافر بھی آئے ۔ تاہم کارروائی کے نتیجے میں قومی شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بحال کر دیا گیا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب بولان میں آپریشن میں تین دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔
تاہم فورسز کے اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی اور نہ ہی اس حوالے سے سرکاری بیان جاری کیا گیا ہے۔
بولان میں ناکہ لگا کر مسافروں کی شناخت اور فورسز سے جھڑپوں کے حوالے سے تاحال کسی تنظیم کا کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا۔
بلوچستان کے ضلع کچھی قدیم علاقہ ہے جو درہ بولان کے ساتھ سنگلاخ پہاڑی سلسلے پر واقع ہے۔درہ بولان کے پہاڑی سلسلے میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔
ماضی میں بھی اس علاقے میں کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے قومی شاہراہ پر ناکے لگانے اور فورسز پر حملوں کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔
گزشتہ برس 2024 میں بھی مسلح افراد نے بولان میں سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیا تھا جس میں پولیس افسر سمیت پانچ افراد ہلاک جب کہ کئی زخمی ہوئے تھے۔
گزشتہ ہفتے بھی بلوچستان کو پنجاب سے ملانے والی قومی شاہراہ پر بارکھان کے علاقے رڑکن میں مسلح افراد نے ناکہ لگا کر ایک بس کو روکا تھا اور اس میں سوار افراد کے شناختی کارڈ چیک کیے تھے۔ عسکریت پسندوں نے پنجاب سے تعلق کی بنیاد پر سات افراد کو بس سے اتار کر قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کی ذمے داری کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔
رواں سال بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر مسلح افراد کی جانب سے ناکہ لگا کر روڈ بلاک کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے بعد صوبے میں قومی شاہراہوں کو سفر کے لیے غیر محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔
بلوچستان حکومت نے قومی شاہراہوں پر سفر کے لیے قواعد و ضوابط لاگو کیے ہیں جن کے تحت بس مالکان کو سیکیورٹی گارڈز تعینات کرنے، رات میں سفر نہ کرنے اور قافلے کی شکل میں سیکیورٹی کے حصار میں سفر کرنے جیسی شرائط شامل ہیں۔