|
کراچی __پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے افسران کے لیے ایک ہزار سے زائد نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
گاڑیوں کی خریداری کے لیے تین ارب روپے کی رقم بھی ادا کردی گئی ہے۔
موجودہ حکومت آمدن بڑھانے کے لیے ٹیکس وصولیوں کو دائرہ وسیع کرنے اور غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے پر زور دیتی ہے۔ ایسے میں ٹیکس وصول کرنے والے وفاقی ادارے کے افسران کے ذاتی استعمال کے لیے گاڑیاں خریدنے کے فیصلے پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
ایف بی آر نے نئی گاڑیوں کی خریداری کی تصدیق کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس کا مقصد فیلڈ افسران کو متحرک کرنا ہے اور انہیں ٹیکس وصولیوں کے لیے شہروں، دیہات اور دور دراز علاقوں میں نقل و حرکت کی آسانی فراہم کرنا ہے۔
دستاویز کے مطابق ایف بی آر ایک ہزار 10 ہنڈا سٹی گاڑیوں کی تیاری کے لیے تین ارب ادا کرے گا اور باقی رقم 500 گاڑیوں کی ڈیلیوری کے بعد دی جائے گی۔
اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں جنوری میں ایف بی آر کو 75، فروری میں 200 اور مارچ میں 225 گاڑیاں فراہم کی جائیں گی۔دوسرے مرحلے میں مزید 510 گاڑیاں اپریل اور مئی میں فراہم کی جائیں گی۔
ایف بی آر نے ان گاڑیوں میں ریورس کیمرے، ہائی گریڈ انٹیریر، ٹریکر سسٹم لگانے سمیت مختلف فیچرز شامل کرنے کا کہا ہے۔
ترجمان ایف بی آر کا یہ بھی کہنا ہے کہ گاڑیوں کی خریداری پر چھ نہیں بلکہ ساڑھے چار ارب روپے کی لاگت آئے گی۔
ان کے بقول گاڑیوں کی خریداری سے ایف بی آر کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا اور برقت وصولیاں ممکن ہوں گی۔
پاکستان میں حکومت کی آمدن بڑھانے کے لیے رواں مالی سال 25-2024 میں سینکڑوں اشیا پر ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی تھی۔
تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کئی گنا بڑھایا گیا جس سے ملک میں دودھ جیسی کئی بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتوں پر بھی سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
ملک میں ایندھن پر بھی مختلف ٹیکسز کی شرح بڑھانے سے بہت سی اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں۔
حکومت نے شہریوں پر ٹیکس بڑھانے کا مقصد یہ بتایا تھا کہ اسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کی جانب سے منظور شدہ شرائط کے تحت 12 ہزار 982ارب روپے کا ریونیو ٹارگٹ پورا کرنا تھا۔
یہ ٹیکس ٹارگٹ گزشتہ سال کے ٹیکس ٹارگٹ سے تقریبا 40 فی صد زیادہ ہے۔ دوسری جانب ایف بی آر موجودہ مالی سال میں اب تک یہ ہدف پورا کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے۔
ماہرین معیشت اور ٹیکس امور کے تجزیہ کار یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں جب حکومت خود کفایت شعاری اپنانے اور اخراجات کم کرنے کے دعوے کررہی ہے اسے ایف بی آر کے لیے اتنی بڑی تعداد میں گاڑیاں خریدنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟
وفاقی حکومت ماضی میں خود بھی ایف بی آر کی کارکردگی اور ٹیکس وصولی کی اہلیت پر تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے۔
کارکردگی پر کیا اثر ہوگا؟
ٹیکس امور کے ماہر اور مصنف اکرام الحق کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی اس طرح کے اعلانات کیے جاتے رہے ہیں جس کا مقصد ٹیکس حکام کی دور دراز علاقوں، مارکیٹس اور بازاروں تک رسائی ممکن بنانا بتایا گیا تھا۔
ان کے بقول یہ بات محض اعلانات کی حد تک رہتی ہے اور اصل میں اس کا مقصد بیوروکریسی کو نوازنا ہوتا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم معاشی تجزیہ کار عالم زیب خان کا کہنا ہے کہ ٹیکس دھندگان کا پیسہ اس طرح غیر ترقیاتی کاموں میں خرچ کرنا حکومتوں کا وتیرہ رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے پس منظر میں نوآبادیاتی سوچ ہے جس میں افسر شاہی کو زیادہ سے زیادہ نواز کر انہیں حکومتِ وقت کا وفادار بنا کر رکھنا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے نے انہیں بالکل بھی حیران نہیں کیا اور اس اسے کسی بہتر نتائج کی توقع رکھنا بھی عبث ہے۔