|
ویب ڈیسک __امریکہ میں گزشتہ سال تقریباً 31 لاکھ امریکی شہریوں کی موت ہوئی جو اس سے ایک سال قبل کے مقابلے میں تقریباً ایک لاکھ 89 ہزار کم ہے۔ اموات کی شرح میں کمی کا رجحان تمام نسل اور قومیتوں، مردوخواتین دونوں میں دیکھا گیا۔
امریکہ میں گزشتہ سال متوقع عمر میں اضافہ ہوا اور ابتدائی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں سال بھی اس میں کچھ معمولی اضافہ ہو سکتا ہے۔
امریکہ میں بیماریوں کی روک تھام کے ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن (سی ڈی سی) کی جمعرات کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال موت کی شرح کم ہونے کی کئی وجوہ ہیں۔
امریکہ میں کووڈ 19، امراضِ قلب اور منشیات کی اوورڈوز اموات کے بڑے اسباب میں شامل ہیں تاہم گزشتہ برس ان سبھی اسباب کے باعث ہونے والی اموات کم ہوئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں امریکیوں کی متوقع عمر میں تقریباً ایک سال کا اضافہ ہوا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے کرونا وبا کے اثرات سے نکلنے کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ لیکن ان کے بقول زندگی کی اوسط عمر ابھی تک وبا سے پہلے کی سطح پر واپس نہیں آئی ہے اور یہ ریکوری کی رفتار سست ہے۔
یونیورسٹی آف منی سوٹا کی محقق اور شرحِ اموات میں تبدیلی کے اسباب کا مطالعہ کرنے والی الزبتھ رگلی کہتی ہیں کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں وہ مسلسل بہتری ہے۔ لیکن یہ بہت سست ہو رہی ہے۔ حالات نارمل ضرور ہوئے ہیں لیکن یہ وبا سے پہلی کی صورتِ حال کے مقابلے میں اب بھی بدتر ہی ہیں۔
سی ڈی سی کے رابرڈ اینڈرسن کہتے ہیں کہ سال 2024 کے پہلے 10 مہینوں کے ابتدائی ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں اس سال تقریباً 13 ہزار کم اموات ہوئی ہیں۔ تاہم سال کے باقی دنوں کا ڈیٹا آنے کے بعد یہ فرق مزید کم ہونے کا امکان ہے۔
سی ڈی سی کے قومی مرکز برائے صحت کے اعداد و شمار میں اموات کا جائزہ لینے والے اینڈرسن کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ 2024 کے لیے متوقع عمر میں ممکنہ طور پر اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن شاید یہ بہت زیادہ نہ ہو۔
لائف ایکسپیک ٹینسی یا متوقع عمر کا اندازہ بچے کی پیدائش کے سال ہونے والی شرح اموات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس حساب سے یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ وہ بچہ کتنے سال تک زندہ رہے گا۔
متوقع عمر کو صحتِ عامہ کے بنیادی پیمانوں میں شامل کیا جاتا ہے۔
امریکہ میں دہائیوں تک متوقع عمر میں ہر سال کم از کم تھوڑا بہت اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ طبی ایجادات اور صحت عامہ سے متعلق کیے گئے اقدامات تھے۔
سال 2014 میں سب سے زیادہ اوسط عمر ریکارڈ کی گئی جو تقریباً 79 سال تھی جس کے بعد یہ کئی برسوں تک نسبتاً مستحکم رہی۔ اس کے بعد کرونا وبا کے دوران اس میں کمی دیکھنے میں آئی اور 2021 میں اوسط عمر ساڑھے 76 سال تک آ گئی۔
بعد ازاں سال 2022 میں یہ بہتر ہوئی اور ساڑھے 77 سال تک پہنچ گئی اور نئی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال یہ تقریباً ساڑھے 78 سال تک پہنچ گئی۔
امریکہ میں خواتین کی اوسط عمر مردوں سے کافی زیادہ ہے۔ خواتین کی اوسط عمر 81 سال سے زیادہ ہے جب کہ اس کے مقابلے میں مردوں کی عمر 76 سال کے اندر ہے۔
گزشتہ پانچ برسوں میں 12 لاکھ سے زائد امریکیوں کی اموات کو کرونا وائرس سے منسلک کیا گیا تھا۔ ان اموات میں سے زیادہ تر 2020 اور 2021 میں قوتِ مدافعت بڑھانے اور ویکسی نیشن عام ہونے سے قبل ہوئی تھیں۔
کرونا وائرس ایک وقت میں اموات کی تیسری بڑی وجہ تھا۔ گزشتہ برس بتدریج کمی کے بعد کرونا سے ہونے والی 50 ہزار اموات کے بعد یہ امریکہ میں موت کے بڑے اسباب میں 10 ویں نمبر پر رہا۔
اینڈرسن کہتے ہیں سال 2024 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب تک کرونا وائرس سے تقریباً 30 ہزار اموات ہوئی ہیں۔ اگر یہی رفتار رہی تو اس سال خود کشی سے ہونے والی اموات کووڈ 19 سے زیادہ ہو سکتی ہیں۔
اگرچہ امراضِ قلب ملک میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے لیکن سال 2023 میں دل کی بیماری سے مرنے والوں کی شرح میں تقریباً تین فی صد کم ہوئی ہے۔
اینڈرسن کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 سے ہونے والی اموات کی شرح میں 73 فی صد کمی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن چوں کہ امراضِ قلب زیادہ لوگوں کو متاثر کرتا ہے لہٰذا چھوٹی تبدیلی بھی زیادہ اثر انداز ہو سکتی ہے۔
سی ڈی سی کی جمعرات کو جاری کردہ ایک اور رپورٹ کے مطابق اوور ڈوز کی وجہ سے ہونے والی اموات میں بھی کمی ہوئی اور یہ 2023 میں یہ ایک لاکھ پانچ ہزار تک آگئی۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ سے لی گئی ہیں۔