انسانی گردے کی پیوندکاری کے لیے جینیاتی خنزیر کی افزائش کا فارم

انسانی گردے کی پیوندکاری کے لیے جینیاتی خنزیر کی افزائش کا فارم Leave a comment

  • حال ہی میں ایک امریکی خاتون میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر کے گردے کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہے۔
  • نیویارک یونیورسٹی اسپتال کا کہنا ہے کہ گردہ درست طور پر کام کر رہا ہے۔
  • اس سے قبل چار مریضوں کو جینیاتی طور پر تبدیل شدہ گردے لگائے گئے تھے لیکن وہ چاروں پیچیدگیوں کی بنا پر دو مہینے کے اندر ہلاک ہو گئے۔
  • جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیروں کی پیدائش اور افزائش کا فارم امریکی ریاست ورجینیا میں قائم ہے۔
  • اس فارم میں پیدائش سے پہلے ہی ڈی این اے میں ایسی تبدیلیاں کر دی جاتی ہیں جسے انسانی مدافعتی نظام مسترد نہ کرے۔
  • صرف امریکہ میں ہر سال گردوں کے تقریباً ایک لاکھ عطیات کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ ان کی دستیابی ایک چوتھائی کے قریب ہے۔
  • طبی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کامیابی کی صورت میں ہر سال لاکھوں مریضوں کی جان بچانے کا ایک نیا طریقہ مل جائے گا۔

امریکی ریاست ورجینیا میں ایک فارم پر ماہرین مختلف قسم کے خنزیروں کی افزائش کر رہے ہیں، بعد ازاں ان کے گردے نکال کر ان مریضوں میں لگائے جائیں گے، جن کے گردے ناکارہ ہو چکے ہیں اور انہیں نئے گردوں کی ضرورت ہے۔

دنیا بھر میں گردے کی پیوندکاری کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اکتوبر کے اعداد و شمار کے مطابق صرف امریکہ میں 90 ہزار سے زیادہ مریض اپنے لیے گردے کے عطیے کا انتظار کر رہے تھے۔

پچھلے سال امریکہ بھر میں صرف 28000 مریضوں کو گردے کا عطیہ مل سکا تھا۔اگرچہ گردے فیل ہونے پر مریض کو ڈائیلسز پر ڈال دیا جاتا ہے لیکن یہ کوئی مستقل علاج نہیں ہے اور ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ہر روز گردے کے عطیے کے منتظر 12 مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

پیوند کاری کے لیے انسانی گردے کا ملنا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ عطیہ کرنے والے کے ساتھ ساتھ گردے کی مریض سے میچنگ بھی ضروری ہوتی ہے۔

گردوں کے لیے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیروں کی افزائش کو طبی ماہرین ایک حوصلہ افزا پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

جنیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر کے گردے کے ٹرانسپلانٹ کی مریضہ ٹوانا لونی کا نیویارک یونیورسٹی اسپتال کے ڈاکٹر جیفری سٹرن معائنہ کر رہے ہیں۔ 11 دسمبر 2024

نیویارک کے ایک اسپتال نے منگل کو اپنے ایک بیان میں بتایا کہ ورجینیا کے اس فارم کے ایک خنزیر کا گردہ پچھلے مہینے ایک مریضہ ٹوانا لونی میں لگایا گیا تھا، جو گزشتہ 8 سال سے ڈائیلسز پر تھی اور گردے کے عطیے کی منتظر تھی۔

طبی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی زندگیاں بچانے کے لیے جانوروں کے اجزا کی پیوندکاری ایک خوش آئند آغاز ہے۔

لونی کا تعلق ایلاباما سے ہے۔ تاہم وہ حیوانی گردہ حاصل کرنے والی پہلی مریضہ نہیں ہیں۔ ان سے قبل چار مریضوں کو خنزیر کے گردے لگائے جا چکے ہیں۔ لیکن وہ پیوند کاری کے دو ماہ کے اندر اندر مر گئے تھے۔

نیویارک یونیورسٹی کے سرجن، لونی کے حوالے سے پر امید ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 53 سالہ لونی صحت مند ہیں۔ پیوند کیا جانے والا گردہ کام کر رہا ہے۔ اگر کوئی پیچیدگی پیدا ہوئی تو دوبارہ ڈائیلسز پر جانے کا آپشن موجود ہے۔

بلیکسبرگ ورجینیا میں قائم ریوائویکار فارم کی سیل بائیوجی لیبارٹی میں جین کی تبدیلی پر ریسرچ ہو رہی ہے۔ 22 نومبر 2024

لونی نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیوندکاری میرے لیے ایک نئی شروعات کی طرح ہے۔ اپنے پاس کام کرنے والے ایک گردے کا ہونا اور اسے محسوس کرنا ناقابل یقین ہے۔

لونی کی کہانی اپنے اندر ایثار و قربانی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ لونی نے 1999 میں اپنی ماں کو اپنے ایک گردے کا عطیہ دیا تھا۔ لیکن بعد ازاں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے لونی کے باقی رہ جانے والے گردے کو نقصان پہنچا اور بالآخر وہ ناکارہ ہو گیا۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ گردے کا عطیہ کرنے والوں میں باقی رہ جانے والے گردے میں خرابی پیدا ہونے کا امکان انتہائی کم ہے۔تاہم جو لوگ گردے کا عطیہ دیتے ہیں، اگر ان کا اپنا گردہ خراب ہو جائے تو ٹرانسپلانٹ کے لیے انہیں ترجیح دی جاتی ہے۔

لیکن لونی کو اپنے لیے گردے کا میچ نہیں مل سکا کیونکہ ان کے جسم کا مدافعتی نظام غیر معمولی طور پر فعال ہو گیا تھا جو ہر میچنگ انسانی گردے کو مسترد کر دیتا تھا۔

فارم میں جیناتی طور پر تبدیل شدہ خنزیروں کی نگہداشت کی جا رہی ہے۔ 20 نومبر 2024

اسی دوران لونی نے خنزیر کے گردے کی پیوندکاری کے بارے میں سنا اور طبی ماہرین سے رابطہ کیا۔ نیویارک یونیورسٹی اسپتال نے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے اس ٹرانسپلانٹ کی اجازت مانگی جو انہیں مل گئی اور سرجری کے گیارہ روز کے بعد لونی کو 6 دسمبر کو اسپتال سے جانے کی اجازت دے دی گئی۔

لونی کو جینیاتی طور پر تبدیل شدہ جس خنزیرکا گردہ دیا گیا ہے وہ ورجینیا کے علاقے بلیکسبرگ(Blacksburg) میں قائم ایک بائیو ٹیک کمپنی ریوائویکار(Revivicor) نے فراہم کیا تھا۔

اس فارم میں ماہرین کی ایک ٹیم آئرس (Ayares) کی قیادت میں کام کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس فارم میں موجود خنزیر، عام یا جنگلی جانور نہیں ہیں بلکہ انہیں پیدا کرنے اور ان کی پرورش کرنے پر لاکھوں ڈالر صرف ہو چکے ہیں۔

انسانی زندگیاں بچانے کا یہ کام سانئس فکشن جیسا ہے جو گزشتہ 20 سال سے تجرباتی مراحل سے گزر رہا ہے۔

ریسرچ فارم کی لیبارٹری میں سیل بائیولوجی کے سربراہ ٹیڈ ووگ نے بتایا کہ ہم خنزیر کے بیضوے کے ڈی این اے میں موجود خلیوں کو تبدیل کر دیتے ہیں تاکہ اس میں انسان سے مطابقت پیدا ہو سکے اور انسان کا قدرتی مدافعتی نظام اسے مسترد نہ کرے۔

بلیکسبرگ کی جینیاتی لیبارٹری میں جین میں تبدیلی کے لیے تیاری کی جا رہی ہے۔ 22 نومبر 2024

خنزیر کے گردے انسانی گردے سے بڑی حد تک مطابقت رکھتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر انہیں جینیاتی طور پر تبدیل کر دیا جائے تو وہ گردوں کے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں۔

کمپنی کے ترجمان ڈیوی اسٹیڈمین نے بتایا کہ اس فارم میں 200 خنزیر رکھے گئے ہیں اور کسی بھی انفیکشن سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔

کمپنی 2025 میں مریضوں پر آزمائشی تجربات شروع کرنا چاہتی ہے جس کے لیے وہ فوڈ اینڈ ڈرگ انڈمنسٹریشن کی اجازت کی منتظر ہے۔ کمپنی 2029 میں جینیاتی خنزیروں کے گردوں کی تجارتی بنیادوں پر فراہمی شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ کمپنی جینیاتی تبدیل شدہ ایک گردہ دس لاکھ ڈالر میں فروخت کرنے کا سوچ رہی ہے۔ یہ رقم امریکہ میں ڈائیلسز پر اٹھنے والے دس سال کے اخراجات کے مساوی ہے۔

(اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات اے پی اور اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)



Supply hyperlink

Leave a Reply