انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والوں کو کن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے؟

انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والوں کو کن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے؟ Leave a comment

انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے احتشام شامی کی یہ تحریر پہلی بار 30 جولائی 2024 کو شائع کی گئی تھی۔ اسے قارئین کے لیے دوبارہ شائع کی گیا ہے۔

  • گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے علی رضا چھ دن کے جس سفر کے بعد اٹلی پہنچے تھے اسے یاد کرتے ہوئے آج بھی ان کی روح کانپ جاتی ہے۔
  • پاکستان میں غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے کے حوالے سے وسطی پنجاب کے اضلاع کا نام سب سے زیادہ سامنے آتا ہے۔
  • عام طور پر ایجنٹ 35 سے 40 لاکھ روپے میں یورپ پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں
  • ایران کے راستے انسانی اسمگلنگ میں اب اغوا برائے تاوان کا نیٹ ورک بھی متحرک ہوچکا ہے۔

گوجرانوالہ — ’’کشتی میں 350 افراد سوار تھے جن میں کچھ خواتین اور بچے بھی تھے۔ ایک دن کے لیے ایک روٹی اور تھوڑا سا پانی ملتا۔ رات ہوتی تو سب لوگ دبک کر بیٹھ جاتے۔ سمندر کا شور اور لہریں پریشان کر کے رکھ دیتیں۔ چوتھے اور پانچویں دن سب کے چہرے لٹک گئے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے ہم کبھی بھی اٹلی نہیں پہنچ پائیں گے۔”

گوجرانوالہ کے ایک قصبے علی پور چٹھہ سے تعلق رکھنے والے علی رضا 11 جون 2023 کو لیبیا سے ایک کشتی کے ذریعے اٹلی روانہ ہوئے تھے جوکہ 17 جون کو اٹلی پہنچی تھی۔

وہ اس وقت غیر قانونی طور پر اٹلی میں رہ رہے ہیں۔ لیکن آج بھی لیبیا سے اٹلی کے اس ہولناک سفر کو یاد کرتے ہیں تو ان کی روح کانپ جاتی ہے۔

علی رضا ان حالات کا سامنا کرنے والے ان لاکھوں افراد میں شامل ہیں جو بیرونِ ملک روزگار یا بہتر زندگی کی تلاش میں انسانی ٹریفکنگ نیٹ ورکس کے ہاتھوں موت کا سمندر پار کرتے ہیں۔

دنیا میں خانہ جنگی، تنازعات، غربت اور کئی دیگر اسباب کے باعث ہر سال لاکھوں افراد انسانی اسمگلنگ اور ٹریفکنگ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اس معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی جانب سے عالمی سطح پر ہر سال 30 جولائی کو ہیومن ٹریفکنگ کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد بین الاقوامی سطح پر ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام کے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔

دنیا کا تقریباً ہر خطہ اس مسئلے سے دوچار ہے۔ پاکستان میں وسطی پنجاب کے کچھ اضلاع انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں جن میں گجرات، منڈی بہاؤ الدین، وزیر آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، حافظ آباد، شیخوپورہ اور نارووال شامل ہیں۔

ان علاقوں میں کچھ دیہات میں آپ کو عالیشان مکانات نظر آئیں گے جہاں رہنے والے فخریہ طور پر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہ مکان ان کے یورپ میں مقیم بیٹوں کی کمائی سے بنے ہیں۔

یوں گاؤں کے دوسرے لوگوں میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے بیٹوں کو یورپ بھیجیں تاکہ راتوں رات ان کے دن بھی بدل جائیں۔

لیکن سب کی کہانی کا اختتام یکساں نہیں ہوتا۔ یورپ جانے کی خواہش میں کتنے ہی جواں سال بیٹے صحراؤں اور پہاڑوں سے گزرتے موت کی گھاٹی میں اترچکے ہیں۔

کچھ مختلف ملکوں کی بارڈر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بنے اور کچھ سمندری لہروں کی نذر ہو گئے۔

یہ مشکلات عبور کرکے جو لوگ یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو وہاں زندگی آسان نہیں ہوتی۔

علی رضا اب اٹلی کے شہر میلان میں ایک پیزہ شاپ میں کام کرتے ہیں۔ جہاں انہیں دوسرے ورکرز کے مقابلے میں کم اجرت ملتی ہے کیوں کہ شاپ کے دیسی مالک کا کہنا ہے کہ اس نے کسی دستاویزات کے بغیر انہیں ملازمت دے رکھی ہے۔

علی رضا روزانہ 15 گھنٹے کام کر کے 75 یورو کما لیتے ہیں جو پاکستانی کرنسی میں 25 ہزار روپے بن جاتے ہیں۔

اس طرح ہفتے میں پانچ دن کما کر ان آمدن 500 یورو اور ایک ماہ میں دو ہزار یورو بنتی ہے۔ ایک ہزار یورو وہ اپنے پاس رکھتے ہیں اور ایک ہزار یورو اپنے گھر بھجوا دیتے ہیں۔

علی رضا کے بقول، “ایک سال دو ماہ میں ابھی تک وہ قرض نہیں اترا جو مختلف لوگوں سے لے کر میرے والدین نے مجھے اٹلی بھجوایا تھا۔ امکان ہے کہ اگلے تین ماہ میں قرض ادا ہوجائے گا جس کے بعد گھر میں بھی خوش حالی آجائے گی جس کے بعد اگلا ہدف بہن کی شادی کرنا ہے۔”

زندگی کے لیے موت کا سفر

علی رضا بتاتے ہیں کہ ایجنٹ نے ان سے 35 لاکھ روپے میں اٹلی پہنچنے کا معاملہ طے کیا تھا۔ وہ دیگر سات لڑکوں کے گروپ میں شامل تھے اور ان میں ہر ایک سے ایجنٹ نے اتنی ہی رقم لی تھی۔

ایجنٹ انہیں اور ان کے ساتھ دیگر سات لڑکوں کو وزٹ ویزہ پر دبئی لے گیا جہاں سے 12 روز بعد وہ لیبیا پہنچ گئے۔ لیبیا میں وہ ڈیڑھ ماہ رہے کیوں کہ کشتی کی بکنگ میں ان کی باری ہی نہیں آرہی تھی۔ کشتی والے فی مسافر پانچ ہزار ڈالر کرایہ لے رہے تھے۔

علی رضا طویل انتظار کے بعد 11 جون کو اپنے گروپ کے ایک اور ساتھی کے ہمراہ کشتی پر سوار ہونے میں کامیاب ہوئے لیکن یہ پہلے جانے والی کشتیوں سے چھوٹی تھی۔ اس کشتی میں لگ بھگ تین سو لوگ سوار تھے۔

علی رضا کہتے ہیں کہ جب وہ 17 جون کو اٹلی پہنچے تو وہاں کافی سختی ہو رہی تھی۔ انہیں گرفتار کرلیا گیا اور ایک سینٹر میں پہنچایا گیا جہاں ان سے تفتیش کی گئی۔ بائیومیٹرک کیا گیا اور تصاویر بنائی گئی اور دو دن بعد انہیں اس سینٹر میں رکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔

وہ کہتے ہیں تب ہمیں پتا چلا کہ جو کشتی 700 سے زیادہ لوگوں کو لے کر ہم سے ایک دن پہلے 10 جون کو لیبیا سے چلی تھی وہ 14 جون کو کھلے سمندر میں ڈوب گئی تھی۔ اس کشتی میں 281 پاکستانی بھی سوار تھے۔

اس حادثے میں ڈوبنے والے افراد میں 55 سے زائد نوجوانوں کا تعلق وسطی پنجاب کے اضلاع گوجرانوالہ، وزیر آباد، گجرات ، منڈی بہاؤالدین اور شیخوپورہ سے تھا۔

سمندر یا زمین؟

جب سے کوئٹہ کے راستے ایران جاکر وہاں سے یونان اور دیگر یورپی ممالک پہنچنے کا سلسلہ کم ہوا ہے اس کے بعد دو ہی غیرقانونی طریقوں سے یورپ جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ایک کشتی کے راستے اٹلی پہنچنے کا ہے اور دوسرا راستہ جعلی دستاویزات تیار کر کے آذر بائیجان یا البانیہ یا کچھ ایسے ممالک سے ہوتے ہوئے یورپ پہنچنا ہے جن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ ان ملکوں کے ہوائی اڈوں پر امیگریشن میں سختی نہیں ہوتی۔

دونوں راستوں سے یورپ پہنچنے کی 100 فی صد ضمانت تو نہیں لیکن جانے والوں کے دماغوں پر یورپ جانے کا خواب اس قدر سوار ہوتا ہے کہ وہ ہر خطرہ مول لینے کو تیار جاتے ہیں۔

حالاں کہ کشتی کے ذریعے اٹلی جانے کے سفر میں ہر سال سینکڑوں اموات ہوجاتی ہیں اور جعلی دستاویزات والے بھی اکثر پکڑے جاتے ہیں۔

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے رواں ماہ جاری کردہ ریکارڈ کے مطابق جعلی دستاویز کے سات کیس پکڑے جاچکے ہیں جن میں پندرہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف مقدمات بھی درج کرلیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ ایف آئی اے ترجمان کے مطابق حال ہی میں مختلف کارروائیوں کے دوران ویزہ فراڈ کے سات گروہوں کے سترہ ارکان پکڑے گئے ہیں۔ ان گروہوں نے سینکڑوں شہریوں کو بیرونِ ملک پہنچانے کا جھانسہ دے کر کروڑو روپے بٹورے تھے۔

انسانی اسمگلرز اور اغوا کی وارداتیں

حالیہ کچھ مہینوں میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں یورپ جانے کے خواہش مند افراد ایجنٹوں کی وساطت سے زائرین کے ویزوں پر ایران جاتے ہیں اور پھر وہاں اغوا کاروں کے گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

اغوا کار بعد میں پاکستانی لڑکوں پر تشدد کرتے ہیں اور تاوان کے لیے ان کی ویڈیوز ان کے گھر وٹس ایپ کر کے تاوان طلب کرتے ہیں۔

گوجرانوالہ کے نواحی گاؤں نور پر کے ایک محنت کش رحمت اللہ کا ایک بھائی بھی ایسی ایک واردات کا نشانہ بن چکا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کا بھائی تین برس سے یورپ جانے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ جہاں کبڈی کھیلنے کے لیے جاتا تھا وہاں اس کے ایک دوست نے بتایا وہ ایک ایجنٹ کے ذریعے اٹلی جارہا ہے اور اسے بھی ساتھ جانے کے لیے کہا۔

رحمت اللہ بتاتے ہیں کہ دونوں دوستوں نے ایجنٹ کو 36 لاکھ روپے دیے اور اب دونوں اٹلی تو نہ پہنچ سکے لیکن ایران میں اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں جہاں سے روزانہ دونوں لڑکوں کی مارپیٹ کی ویڈیوز موصول ہو رہی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ اغوا کار دونوں دوستوں کی رہائی کے لیے 50، 50 لاکھ روپے کا مطالبہ کرہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے،’’ہم غریب لوگ ہیں کہاں سے رقم دیں، ہمارا دن رات رو رو کر کٹ رہا ہے۔”

رحمت اللہ ایف آئی اے میں اپنے بھائی کے اغوا کا مقدمہ درج کراچکے ہیں۔ جس میں اصغر علی ملہی، حماد اصغر اور طلحہ اصغر نامی ملزمان کو انسانی اسمگلنگ اور اغوا کے مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے۔

اس کیس کے بارے میں ریجنل ڈائریکٹر ایف آئی اے عبدالقادر قمر کا کہنا ہے کہ اس بارے میں تحقیقات کا آغاز ہو گیا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان میں موجود ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں جب کہ مغویوں کی بازیابی کے لیے ایران میں موجود سیکیورٹی فورسز سے بھی رابطے کیے جارہے ہیں۔

’طریقۂ کار بدل گیا‘

انسانی اسمگلنگ اور ویزہ فراڈ کے کیسوں پر نظر رکھنے والے شہروز شبیر چوہان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ملک سے باہر جانے کے رجحان میں تیزی کا انسانی اسمگلرز ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بدلتے حالات کے ساتھ انسانی اسمگلنگ کا طریقہ کار بھی بدل گیا ہے۔ اس دھندے سے وابستہ لوگ جعلی دستاویزات کے ذریعے چکمہ دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ترقی یافتہ ممالک میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونا اب آسان کام نہیں رہا۔

وہ بتاتے ہیں کہ مختلف ایجنٹس نے کنسلٹنٹس کے نام سے دفاتر کھول رکھے ہیں جو لوگوں کو ” ڈن بیس” پر ویزہ مہیا کرنے کے سبز باغ دکھاتے ہیں۔ عام طور پر یہ یورپ کا ویزہ لگوانے کے لیے 25 سے 50 لاکھ روپے مانگتے ہیں۔

شبیر چوہان کے مطابق ایسے ایجنٹس لوگوں کی دستاویزات کا غلط استعمال کرتے ہیں اور ایک شخص کے کاغذات کو دوسرے شخص کے کاغذات کے ساتھ منسلک کر کے ویزہ لگوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر کاغذات پکڑے جائیں تو ویزہ اپلائی کرنے والا ہمیشہ کے لیے بلیک لسٹ ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آذربائیجان یا البانیہ یا کسی چھوٹے ملک سے جعلی ویزے پر اٹلی یا یورپ کے کسی دوسرے ملک پہنچانا ناممکن ہے کیوں کہ جب وہ شخص جس ملک میں پہنچتا ہے تو وہاں ویزا اسکین ہوتا ہے اور ویزہ ریکارڈ میں سے نکلتا ہی نہیں اس لیے ایسے مسافر کو ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے۔



Supply hyperlink

Leave a Reply