|
ویب ڈیسک—امریکی حکام نےکہا ہے کہ وزیرِ دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے فوج کے کچھ حصوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایسی تجاویز تیار کریں جن سے آئندہ پانچ برس میں ان کے اخراجات میں ممکنہ طور پر آٹھ فی صد تک کمی لائی جا سکے۔
امریکی وزیرِ دفاع کی ان ہدایت کی روشنی میں یہ واضح نہیں ہے کہ فوج کے مجموعی بجٹ میں بھی کوئی کمی آ سکتی ہے یا نہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اس معاملے سے باخبر حکام نے آگاہ کیا کہ وزیرِ دفاع نے 24 فروری تک اخراجات میں کمی لانے کی تجاویز مانگی ہیں۔
حکام کے بقول فوجی عہدیداران کو ارسال کیے گئے میمو سے ایسا نہیں لگتا کہ پیٹ ہیگسیتھ بجٹ میں بڑی کٹوتی کے خواہاں ہیں۔ لیکن وہ اخراجات کا ایسا تعین چاہتے ہیں جو صدرٹرمپ کی ملک سے متعلق سیکیورٹی کی ترجیحات سے ہم آہنگ ہو۔
حکام کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکی فوج میں بعض حصے ایسے بھی ہیں جنہیں اخراجات میں کمی لانے سے مستثنا قرار دیا گیا ہے جن میں اِنڈو پیسفک کمانڈ، میکسیکو کی سرحد پر فوجی اقدامات کے لیے متعین بجٹ کے ساتھ ساتھ میزائل ڈیفنس اور انسانوں کے عمل دخل کے بغیر استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی تیاری بھی شامل ہیں۔
امریکی فوج کے یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کی کمانڈز کو اخراجات میں کمی کی تجاویز سے استثنا نہیں دیا گیا۔
امریکہ کی فوج کا سالانہ بجٹ ایک ٹریلین (10 کھرب) ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ سابق صدر جو بائیڈن نے رواں مالی سال کے لیے فوج کے 895 ارب (آٹھ کھرب 95 ارب) ڈالر بجٹ کی منظوری دی تھی جو رواں برس ستمبر تک مختص ہے۔
امریکہ میں مالی سال یکم اکتوبر کو شروع اور 30 ستمبر کو ختم ہوتا ہے۔
وزیرِ دفاع پیٹ ہیگسیتھ کہہ چکے ہیں کہ پینٹاگان کی تمام تر توجہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور چین سے لاحق خطرات پر ہے۔
وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اب یورپ کی سیکیورٹی پر مزید بنیادی توجہ نہیں دے سکتا۔
امریکہ میں حکومت وفاقی انتظامیہ کا سائز کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے ایلون مسک کی سربراہی میں محکمہ ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفی شینسی نے پینٹاگان کا تجزیہ بھی شروع کر دیا ہے۔
امریکہ میں محکمۂ دفاع کے اخراجات پر سیاسی منظرنامے پر تنقید سامنے آتی رہی ہے۔ البتہ ملک میں حزبِ اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ ایلون مسک اور ان کے ماتحت محکمے کے پاس پینٹاگان کی تنظیمِ نو کا تجربہ نہیں ہے اور اس طرح کی کسی بھی کوشش سے امریکہ کے خفیہ پروگرام افشا ہونے کا اندیشہ موجود ہے۔
اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔