امریکی وزیرِ خارجہ کی اسرائیل آمد، نتین یاہو کی غزہ کے حوالے سے ٹرمپ کے وژن کی تعریف

امریکی وزیرِ خارجہ کی اسرائیل آمد، نتین یاہو کی غزہ کے حوالے سے ٹرمپ کے وژن کی تعریف Leave a comment

  • مارکو روبیو نے اتوار کو نیتن یاہو سے ملاقات میں غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔
  • امریکہ کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو منصب سنبھالنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کا پہلا دورہ کر رہے ہیں۔
  • دورے میں اسرائیل پہنچنے کے بعد انہوں نے وزیرِا عظم نیتن یاہو سے ملاقات کی ہے۔
  • امریکی وزیرِ خارجہ اسرائیل کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کابھی دورہ کریں گے۔

ویب ڈیسک— امریکہ کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو منصب سنبھالنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے اپنے پہلے دورے پر اسرائیل پہنچ گئے ہیں۔

اسرائیل میں انہوں نے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق مارکو روبیو نے اتوار کو نیتن یاہو سے ملاقات میں غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یروشلم میں وزیرِ اعظم کے آفس میں نیتن یاہو نے امریکی وزیرِ خارجہ سے نجی ملاقات کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں میں وفود کے ہمراہ بھی ملاقات کی جائے گی۔

امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کے اسرائیل کے دورے کےبعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دوروں کا بھی امکان ہے۔

رپورٹس کے مطابق مارکو روبیو پیر کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچیں گے۔

’اے ایف پی‘ کے مطابق مارکو روبیو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ سے متعلق اسرائیل اور امریکہ کا مشترکہ نقطۂ نظر ہے۔ ان کے بقول وہ اس خطے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے جرت مندانہ وژن کے معترف ہیں۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے امریکی وزیرِ خارجہ سے ملاقات میں غزہ کے مستقبل کے حوالے سے ٹرمپ کے جرت مندانہ وژن پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔ ان کے مطابق اس وژن کو حقیقت بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے کے مطابق غزہ سے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو مستقل طور پر دیگر عرب ممالک منتقل کرکے آباد کیا جائے گا جب کہ غزہ پر امریکہ کا کنٹرول ہو گا اور اسے ایک شان دار تفریحی مقام میں تبدیل کر دیا جائے گا۔عرب لیگ میں شامل ممالک اس منصوبے کو مسترد کر چکے ہیں۔

مارکو روبیو ایسے وقت میں اسرائیل پہنچے ہیں جب ان کی آمد سے چند گھنٹے قبل حماس نے تین یرغمالوں کو رہا کیا تھا جب کہ اس کے بدلے میں جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید 369 فلسطینیوں کو رہائی ملی تھی۔

خیال رہے کہ حماس اور اسرائیل میں 19 جنوری کو جنگ بندی معاہدہ ہونے کے بعد یہ فریقین میں یرغمالوں اور قیدیوں کے تبادلے کا چھٹا دور تھا۔

عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس نے 10 فروری کو ایک بیان میں اسرائیل پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئےمزید یرغمالوں کی رہائی معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے بھی اسی دن ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر حماس نے ہفتے کو دن 12 بجے تک تمام یرغمالوں کو نہ چھوڑا تو وہ اسرائیلی وزیرِ اعظم سے تمام معاہدے ختم کرنے کا کہیں گے اور پھر تباہی آئے گی۔ صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد حماس نے جمعرات کو جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کا اعلان کیا تھا۔

جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے لیے مذاکرات کے حوالے سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ آئندہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوں گے۔

حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ چھ ہفتوں پر مشتمل تھا جس کی معیاد رواں ماہ کے آخری میں پوری ہو رہی ہے۔

منگل کو اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے متنبہ کیا تھا کہ اگر حماس نے ہفتے تک یرغمال رہا نہ کیے تو وہ جنگ بندی معاہدہ ختم کر دیں گے۔ انہوں نے فوج کو لڑائی کے لیے تیار رہنے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔

واضح رہے کہ امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ ماہ تین مراحل پر مشتمل جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہوا تھا۔

جنگ بندی کے تحت پہلے مرحلے میں حماس کو 33 یرغمالی جب کہ اسرائیل کو سینکڑوں فلسطینی قیدی رہا کرنے ہیں جس کے بعد فریقین کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات ہوں گے۔

غزہ میں جنگ بندی معاہدہ لگ بھگ 15 ماہ تک ہونے والی لڑائی کے بعد ہوا تھا۔

غزہ میں جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔

امریکہ، یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تھا جس میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 47 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس تعداد میں ہلاک ہونے والے 17 ہزار عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔

اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔





Supply hyperlink

Leave a Reply