امریکی صدر اور بھارتی وزیرِ اعظم کے پاکستان سے متعلق بیان کو مسترد کرتے ہیں: دفترِ خارجہ

امریکی صدر اور بھارتی وزیرِ اعظم کے پاکستان سے متعلق بیان کو مسترد کرتے ہیں: دفترِ خارجہ Leave a comment

  • جمعے کو پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی برادری پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں اور قربانیوں کو تسلیم کرتی ہے۔
  • بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان خود دہشت گردی سے شدید متاثر ہے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
  • ترجمان پاکستانی دفترِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے معاملات کو وسیع تناظر اور غیرجانب دارانہ انداز میں دیکھیں۔

اسلام آباد — پاکستان نے امریکی صدر اور بھارتی وزیرِ اعظم کے پاکستان سے متعلق مشترکہ بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے اسے یک طرفہ، ‘گمراہ کن’ اور سفارتی آداب کے منافی قرار دیا ہے۔

جمعے کو پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی برادری پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں اور قربانیوں کو تسلیم کرتی ہے۔ پاکستان خود دہشت گردی سے شدید متاثر ہے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

دفترِ خارجہ کا یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جمعرات کو ہونے والی ملاقات کے بعد آیا ہے جس میں دونوں رہنماؤں نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین سرحد پار دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔

دونوں رہنماؤں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ واقعے میں ملوث مجرموں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لائے۔

مشترکہ اعلامیے کے مطابق صدر ٹرمپ اور وزیرِ اعظم مودی نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور غیر ریاستی عناصر تک ان کی رسائی روکنے کے لیے مل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا۔

جمعے کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور اس جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات جاری رکھے گا، جن میں ان کارروائیوں کا سدباب بھی شامل ہے جو ان کے بقول غیر ملکی عناصر کی جانب سے کی جاتی ہیں۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے معاملات کو وسیع تناظر اور غیرجانب دارانہ انداز میں دیکھیں اور ایسے یک طرفہ مؤقف کی حمایت سے گریز کریں جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے امریکہ کی جانب سے بھارت کو “جدید فوجی ٹیکنالوجی کی مجوزہ منتقلی پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔”

شفقت علی خان کے مطابق ایسے اقدامات خطے میں عسکری توازن کو بگاڑتے ہیں اور اسٹریٹجک استحکام کو نقصان پہنچاتے ہیں جو جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کے مقصد کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوتے۔

ملاقات کے دوران امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ بھارت کو رواں برس سے ہی دفاعی سازو سامان کی فروخت بڑھا دی جائے گی جس کے نتیجے میں نئی دہلی کو ‘ایف 35’لڑاکا طیارے فراہم کرنے کی راہ ہموار ہو سکے گی۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 21 ویں صدی کے لیے امریکہ اور بھارت کا تعاون ایک تاریخی قدم ہے جو ہماری شراکت داری اور دوستی کے ہر پہلو کو مضبوط کرے گی۔



Supply hyperlink

Leave a Reply