امریکی سفارت کاروں کے ایک عشرے میں شام کے پہلا دورے کے مقاصد میں لاپتہ امریکی صحافی ٹائس کی تلاش بھی شامل

امریکی سفارت کاروں کے ایک عشرے میں شام کے پہلا دورے کے مقاصد میں لاپتہ امریکی صحافی ٹائس کی تلاش بھی شامل Leave a comment

  • امریکی سفارت کار ایک عشرے سے زیادہ کے عرصے کے بعد پہلی بار شام کے سرکاری دورے پر گئے ہیں۔
  • امریکہ نے شام میں اپنا سفارت خانہ سال 2012 میں بند کر دیا تھا۔
  • سفارت کار بشارالاسد حکومت کے دور میں لاپتہ ہونے والے امریکی صحافی آسٹن ٹائس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
  • ٹائس ریاست ٹیکساس کے رہنے والے ہیں جنہیں 2012 میں شام میں حراست میں لیا گیا تھا۔
  • انہیں اس وقت ایک چیک پوسٹ پر پکڑا گیا تھا جب وہ دمشق سے جا رہے تھے۔
  • امریکی سفارت کار شام میں سول سوسائٹی، ملازمت پیشہ افراد، مختلف برادریوں اور شام کی دوسری شخصیات سے براہ راست ملاقات کریں گے۔

امریکہ کے سفارت کاروں کا ایک گروپ شام کے نئے رہنماؤں سے بات چیت اور بشارالاسد حکومت کے دور میں لاپتہ ہونے والے امریکی صحافی آسٹن ٹائس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے دورے پر ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی سفارت کار ایک عشرے سے زیادہ کے عرصے میں شام کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ نے شام میں اپنا سفارت خانہ سال 2012 میں بند کر دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اسد حکومت نے جمہوریت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کو دبانے کے لیے بڑے پیمانے پر طاقت کا استعمال کیا تھا جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔

سفارت کاروں میں اسسٹنٹ سکرٹری برائے امور خارجہ برائے مشرقی امور باربرا لیف، شام کے لیے سابق خصوصی ایلچی ڈینیل روبنسٹین اور بائیڈن انتظامیہ کے یرغمالی مذاکرات کے لیے چیف ایلچی راجر کارسٹینس شامل ہیں۔

واشنگٹن میں محکمہ خارجہ نے جمعہ کو کہا کہ سفارت کار شام کے عبوری رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرنے والے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ سفارت کار، لاپتہ صحافی آسٹن ٹائس، ماجد کمالماز اور دیگر امریکی شہریوں کا کھوج لگانے کی کوشش کریں گے۔

آسٹن ٹائس ریاست ٹیکساس کے رہنے والے ہیں جنہیں 2012 میں شام میں حراست میں لیا گیا تھا۔

انہیں ایک چیک پوسٹ پر اس وقت پکڑا گیا تھا جب وہ دمشق سے جا رہے تھے۔

گرفتاری کے بعد آسٹن کی ایک مختصر ویڈیو کے علاوہ ان کے بارے میں کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔

ٹائس بیرون ملک سب سے زیادہ عرصے تک حراست میں رہنے والے امریکی صحافی ہیں۔

وہ اخبار دی واشنگٹن پوسٹ، نشریاتی ادارے سی بی ایس اور مکلاچی سمیت مختلف میڈیا آوٹ لیٹس کے لیے فری لانس کام کرتے تھے۔

ماجد کمالماز ایک شامی نژاد امریکی ماہر نفسیات تھے جو جنگ زدہ ملک کے پناہ گزینوں کا علاج کر رہے تھے۔

انہیں 2017 میں ایک سرکاری چوکی پر روکا گیا تھا۔ وہ ایک معمر رشتہ دار سے ملنے کے لیے شام جا رہے تھے۔ بعد ازاں، مئی 2024 میں امریکہ کو معلوم ہوا کہ کمالماز حراست کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے جون میں ایک بیان میں زور دیا تھا کہ شام کی حکومت ماجد کمالماز کے حوالے سے جوابدہ ہے۔

ماجد کمالماز کے خاندان نے جولائی میں شام کی حکومت کے خلاف ان کی ناجائز حراست اور ہلاکت پر مقدمہ دائر کیا تھا۔

رواں ماہ اسد حکومت کے خاتمے نے صحافی آسٹن ٹائس کے خاندان کو ایک موہوم سی امید دلائی کہ آسٹن بھی شام میں رہا کیے جانے والے ہزاروں قیدیوں میں شامل ہوں گے۔

ٹائس کی والدہ ڈیبرا نے گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہم یہ امید کر رہے ہیں کہ دمشق میں جو لوگ آ رہے ہیں اور وہ جیلوں کو کھول رہے ہیں، خدا کی قدرت سے وہ اس جیل کو بھی کھولیں گے جس میں آسٹن موجود ہو”۔

امریکی صحافی کے اہل خانہ نے اس ماہ کہا کہ انہیں ایک ذریعے سے یہ مصدقہ اطلاع ملی ہے جسے امریکی حکومت نے بھی جانچا تھا کہ ٹائس زندہ ہے۔

امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ ٹائس اب بھی زندہ ہے۔ اس لیے نائس کے بارے میں معلوم کرنا اس کی ایک ترجیح ہے۔

شام کی عبوری حکومت نے کہا ہے کہ ٹائس کی تلاش جاری ہے۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شام کے دورے پر جانے والے امریکی سفارت کار یہ جاننے کے لیے کہ وہاں کے لوگ ملک کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، ان سے براہ راست ملیں گے، وہ سول سوسائٹی، ملازمت پیشہ افراد، مختلف کمیونیٹز کے لوگوں اور شام کی دوسری شخصیات سے ملاقات کریں گے۔ وہ یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ ان کے خیال میں امریکہ کس طرح ان کی حمایت کر سکتا ہے۔



Supply hyperlink

Leave a Reply