- الیکشن مہم میں صدر ٹرمپ کے اس جزیرے کے بارے میں بیانات دوسرے مسائل پر غالب رہے۔
- کامیاب پارٹی ڈیموکراٹٹ گرین لینڈ کی ڈینمارک سے بتدریج آزادی کے حق میں ہے۔ الیکشن میں اس پارٹی نے 29.9 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
- صدر ٹرمپ نے ڈنمارک کے نیم خود مختار علاقے کو امریکہ کا حصہ بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے کیونکہ وہ اسے امریکی سلامتی کے مفاد میں بہت اہم سمجھتے ہیں۔
- آرکٹک پر برف پگھلنے سے گرین لینڈکے قدرتی وسائل تک رسائی آسان ہوگئی ہے اور اس سے جہازرانی کے نئے راستے کھل رہے ہیں۔ روس اور چین نے اس علاقے میں اپنی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے۔
گرین لینڈکے منگل کو ہونے والے انتخابات میں حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکراٹٹ نے بائیں بازو کے اتحاد کے خلاف کامیابی حاصل کرلی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گرین لینڈ کو امریکہ کا حصہ بنانے کے حالیہ عزم نے ان انتخابات کو بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا دیا تھا۔
الیکشن مہم میں صدر ٹرمپ کے اس جزیرے کے بارے میں بیانات دوسرے مسائل پر غالب رہے۔
گرین لینڈ کے الیکشن میں فتح یاب ہونے والی جماعت ڈیموکراٹٹ کے رہنما اور صنعت اور معدنیات کے سابق وزیر جینز فریڈرک نیلسن کہتے ہیں کہ گرین لینڈ کے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔ “ہم اپنی فلاح بہبود پر خرچ کے لیے زیادہ کاروبار چاہتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا، “ہم کل ہی آزادی نہیں چاہتے، ہم ایک اچھی بنیاد چاہتے ہیں۔
کامیاب پارٹی ڈیموکراٹٹ گرین لینڈ کی ڈنمارک سے بتدریج آزادی کے حق میں ہے۔ الیکشن میں اس پارٹی نے 29.9 فیصد ووٹ حاصل کیے جو کہ 2021 کے الیکشن کے مقابلے میں 9.1 فیصد زیادہ ہیں۔برسراقتدار پارٹی “انوئٹ اتاق اتیگیت” بھی گرین لینڈ کی بتدریج آزادی کی حامی ہے، صرف 36 فیصد ووٹ حاصل کر سکی۔
نالرک پارٹی نے، جو گرین لینڈ کی تیز تر آزادی کی حمایت کرتی ہے، 24.5 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے ڈنمارک کے نیم خود مختار علاقے کو امریکہ کا حصہ بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے کیونکہ وہ اسے امریکی سلامتی کے مفاد میں بہت اہم جانتے ہیں۔
گرین لینڈ کے لوگوں کی اکثریت اس بات سے اتفاق نہیں کرتی۔گرین لینڈ صرف 57 ہزار کی آبادی والا وسیع جزیرہ ہے جو زمین کے شمالی حصے میں واقع قطبی علاقے آرکٹک میں ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق نیلسن کی جماعت ایک اتحادی حکومت بنانے کی کوشش کرے گی۔
وزیر اعظم میوٹ اگیڈ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ وہ الیکشن کے نتائج کے احترام کرتےہیں اور وہ مخلوط حکومت پر کسی بھی نئی تجویز کو سننے کو تیار ہیں۔
بیش قیمت معدنیات سے مالا مال گرین لینڈ کی تاریخ
آرکٹک پر برف پگھلنے سےگرین لینڈ کے قدرتی وسائل تک رسائی آسان ہوگئی ہے اور جہازرانی کے نئے راستے کھل رہے ہیں۔ روس اور چین نے اس علاقے میں اپنی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے۔
گرین لینڈ ڈنمار ک کی سابق نو آبادی ہے اور 1953 کے بعد سے یہ ڈنمارک کے زیر انتظام ہے۔ 1979 میں گرین لینڈ نے کچھ خود مختاری حاصل کی تھی جب اس کی پہلی پارلیمان وجود میں آئی۔
تاہم، ڈنمارک کواب بھی گرین لینڈ کے خارجہ تعلقات، دفاع اور مالی پالیسی پا کنٹرول حاصل ہے۔ ڈنمارک ہر سال تقریبأ ایک ارب ڈالر اس کی معیشت کے لیے مختص کرتا ہے۔
2009 میں گرین لینڈ کو ریفرنڈم کے ذریعہ مکمل آزادی حاصل کرنے کا حق ملا تھا۔
تاہم، جزیرے نے ابھی تک یہ اقدام ان خدشات کی وجہ سے نہیں اٹھایا کہ ڈنمارک کی اقتصادی امداد کے بغیر اس کا معیار زندگی گر جائے گا۔
لیکن صدر ٹرمپ کی گرین لینڈ میں دلچسبی نے صورت حال کو بدل دیا ہے ۔ امریکی دلچسبی اور آبائی لوگوں کے اپنی ثقافت پر فخر نے گرین لینڈ کی آزادی کے معاملے کو الیکشن کا نمایاں ترین مسئلہ بنا دیا۔
بعض رہنماوں نے آزادی کے معاملے پر امریکی صدر پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
جنوری میں کیے گئے ایک عوامی جائزے نے ظاہر کیا کہ گرین لینڈ کے لوگوں کی اکثریت آزادی کے حصول کے حق میں ہے لیکن لوگ اس اقدام کے وقت پر متفق نہیں ہیں۔
قبل ازیں، الیکشن مہم میں ڈنمارک کی طرف سے تاریخی ناانصافیوں پر توجہ مرکوز تھی۔
(اس خبر میں شامل معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)