امریکہ سے غیرقانونی تارکینِ وطن کی بے دخلی کا معاملہ، کیا بھارت اپنے ہزاروں شہریوں کی واپسی کے لیے تیار ہے؟

امریکہ سے غیرقانونی تارکینِ وطن کی بے دخلی کا معاملہ، کیا بھارت اپنے ہزاروں شہریوں کی واپسی کے لیے تیار ہے؟ Leave a comment

  • نئی دہلی نے امریکہ میں موجود غیر قانونی بھارتی تارکینِ وطن کو واپس لانے کے سلسلے میں ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کر دیا ہے: رپورٹس
  • رپورٹس کے مطابق دونوں ملکوں نے 18000 غیر قانونی بھارتی تارکینِ وطن کی شناخت کی ہے۔
  • امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد سات سے آٹھ لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔
  • تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا نظر آتا ہے۔
  • غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے میں امریکہ کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے: تجزیہ کار

نئی دہلی — امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد غیر قانونی تارکینِ وطن کے سلسلے میں ان کے سخت مؤقف سے بھارت میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔نئی دہلی کے بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا نظر آتا ہے۔

نئی دہلی کے اخبارات نے بدھ کو امریکی میڈیا ادارے ’بلومبرگ‘ کی رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ نئی دہلی نے امریکہ میں موجود غیر قانونی بھارتی تارکینِ وطن کو واپس لانے کے سلسلے میں ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کا مقصد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مطمئن کرنا اور کسی بھی ممکنہ تجارتی تنازع سے بچنا ہے۔

تاہم بھارتی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق دونوں ملکوں نے 18000 غیر قانونی بھارتی تارکینِ وطن کی شناخت کی ہے۔ بلومبرگ نے باخبر ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔

رپورٹس کے مطابق اس معاملے پر بھارت اور امریکہ کے درمیان نجی طور پر تبادلۂ خیال ہو رہا ہے اسی لیے اسے ابھی عام نہیں کیا گیا ہے۔

امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد سات سے آٹھ لاکھ تک بتائی جاتی ہے اور صدر ٹرمپ کی انتطامیہ غیر قانونی تارکیںِ وطن کو واپس اپنے ملکوں میں بھیجنے کے لیے پرعزم ہے۔

مبصرین کے مطابق اس معاملے پر امریکہ میں بحث شروع ہو گئی ہے۔ بیش تر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اقدام ٹرمپ کے ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ کی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے کیا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق دیگر ممالک کے مانند بھارت بھی ٹرمپ انتظامیہ کو خوش رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ پسِ پردہ گفت و شنید جاری رکھے ہوئے ہے۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران غیر قانونی تارکینِ وطن کو نکالنے اور پیدائش کی بنیاد پر شہریت دینے کے فیصلے کو واپس لینے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے دو گھنٹے کے اندر اس حوالے سے ایگزیکٹو آرڈرز بھی جاری کر دیے ہیں۔

بھارت کا خیال ہے کہ اس کے اس قدم کے عوض ٹرمپ انتظامیہ امریکہ میں قانونی طریقے سے قیام پذیر بھارتی شہریوں بالخصوص ایچ ون ویزا پر جانے والے طلبہ اور ہنر مند کارکنوں کا تحفظ کرے گی۔

نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کی رپورٹ کے مطابق امیگریشن کے ایشو پر امریکہ کے ساتھ تعاون کا بھارت کا مقصد اس کے ساتھ مضبوط تعلقات کو برقرار رکھنا ہے جو کہ اس کے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کے لیے بہت اہم اور ضروری ہے۔

یاد رہے کہ بھارت کی نریندر مودی حکومت تائیوان، سعودی عرب، جاپان اور اسرائیل سمیت متعدد ملکوں کے ساتھ مائیگریشن معاہدہ کرنے کے لیے متحرک ہے۔

رپورٹس کے مطابق غیر ملکوں میں علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں نے بھی بھارت کو امیگریشن ایشو پر امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کیا ہے۔ مثال کے طور پر خالصتان تحریک، جو کہ بھارت میں ایک علیحدہ ریاست خالصتان کے قیام کی کوشش کر رہی ہے، بھارت کے لیے تشویش کا سبب ہے۔

بھارت کو امید ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کو واپس لے کر اس قسم کی تحریکوں کے سپورٹ نیٹ ورک کو غیر فعال کرنے اور اپنی طرف دوسروں کی توجہ مبذول کرانے سے روکنے میں مدد ملے گی۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے قبل ازیں ایک پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ بھارت اور امریکہ غیر قانونی تارکینِ وطن کو روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد امریکہ میں قانونی طریقے سے نقل مکانی کی حوصلہ افزائی اور مواقع پیدا کرنا ہے۔ امید ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے۔

امریکی ’کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن‘ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں مجموعی طور پر جو غیر قانونی تارکین وطن ہیں ان میں بھارتی شہری زیادہ نہیں ہیں۔ تین فی صد بھارتی شہری مالی سال 2024 میں غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوئے تھے۔

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ ’امریکن امیگریشن کونسل‘ (اے آئی سی) کے مطابق غیر قانونی تارکینِ وطن کو امریکہ سے نکالنے کے لیے 30 ہزار نئے ایجنٹس اور اسٹاف کی ضرورت پڑے گی اور اس پر 315 ارب ڈالر سے لے کر ایک کھرب ڈالر تک کا خرچ ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ براک اوباما اور جو بائیڈن کے اداور میں جتنے غیر قانونی تارکین وطن ملک سے نکالے گئے تھے ٹرمپ کے پہلے دور میں نکالے جانے والوں کی تعداد اس سے کم تھی۔

ان کے خیال میں ایسے غیر قانونی تارکین وطن کی نشان دہی کی جا سکتی ہے جن پر کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کا الزام ہو۔

وہ امریکن امیگریشن کونسل کے حوالے سے کہتے ہیں کہ جو غیر ملکی گزشتہ دس بیس سال سے وہاں رہ رہے ہیں ان کے پاس سوشل سیکیورٹی کارڈ اور سوشل سیکیورٹی نمبر موجود ہیں۔ وہ ٹیکس دیتے ہیں اور طبی امداد بھی لیتے ہیں۔ بہت سے ذاتی مکان یا کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شناخت آسان نہیں۔

تاہم امریکہ میں کتنے بھارتی غیر قانونی طریقے سے رہ رہے ہیں اس کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

نئی دہلی کے اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے گزشتہ سال اکتوبر میں ’یو ایس کسٹم اینڈ بارڈر پروٹیکشن‘ کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ یکم اکتوبر 2023 سے 30 ستمبر 2024 تک میکسیکو اور کینیڈا کی طرف سے امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش میں 29 لاکھ افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں سے 90 ہزار سے زائد بھارتی تھے۔

امریکہ کے ’ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی‘ نے گزشتہ سال دسمبر میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 2022 کے بعد سے اب تک وہاں 220000 غیر قانونی بھارتی تارکین وطن رہ رہے ہیں۔

اعداد و شمار مزید بتاتے ہیں کہ بھارتی غیر قانونی تارکین وطن میں 50 فی صد تعداد گجراتی شہریوں کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایسے بیشتر افراد کینیڈا اور میکسیکو کے راستے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

تاہم 2024 میں بھارت سے امریکہ جانے والے غیر قانونی تارکینِ وطن کی گرفتاری کی تعداد میں کمی آئی تھی۔ 2024 میں 25616 جب کہ 2023 میں 41770 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔

ایک امریکی تھنک ٹینک ’پیو ریسرچ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق میکسیکو اور سلواڈوران کے بعد امریکہ میں غیر دستاویزی بھارتی تارکین وطن تیسرا سب سے بڑا گروپ ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے 2024 میں 1500 بھارتی شہریوں کو واپس بھیجا تھا۔

مبصرین کے مطابق سابق صدور جو بائیڈن، براک اوباما اور جارج بش کی نرم پالیسیوں کی وجہ سے بھی وہاں غیر قانونی تارکینِ وطن کی آمد میں اضافہ ہوا۔ اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد تمام غیر قانونی تارکین وطن کی نصف ہے۔

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کے مطابق غیر قانونی تارکینِ وطن کو نکال باہر کرنے کے امریکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ لوگ امریکی ورک فورس کا تین سے پانچ فی صد ہیں۔ امریکی جی ڈی پی میں ان کا تعاون 4.2 سے 6.8 فی صد تک ہے۔

غیر قانونی تارکینِ وطن کے علاوہ ایچ ون ویزا معاملے پر بھی بھارت میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔

اپنے پہلے دورِ حکومت میں بھی ٹرمپ نے اس معاملے پر سخت پالیسی اپنائی تھی۔ اس بار وہ اس قانون میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھارتی طلبہ اٹھاتے ہیں۔ سخت فیصلے کا ان پر منفی اثر پڑے گا۔

اسد مرزا کے مطابق طلبہ کے علاوہ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ تر ٹیکنوکریٹ ہیں جو آئی ٹی کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی متاثر ہوں گے۔

ان کے خیال میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے سلسلے میں ٹرمپ کا سخت مؤقف دانش مندانہ نہیں لگتا۔ اب تک امریکی پالیسی مختلف اقوام کو ساتھ لے کر ایک مربوط سماج کی تشکیل رہی ہے۔ ٹرمپ کا یہ فیصلہ کہ امریکہ کو دنیا کا نمبر ون ملک بنانے میں صرف امریکی شامل ہوں دوسری اقوام کے لوگ نہیں، اس پالیسی سے انحراف ہے۔



Supply hyperlink

Leave a Reply