افغانستان میں خواتین پر میڈیکل ایجوکیشن حاصل کرنے پر ‘پابندی’

افغانستان میں خواتین پر میڈیکل ایجوکیشن حاصل کرنے پر ‘پابندی’ Leave a comment

  • طالبان سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ کے جاری کردہ فرمان کا اطلاق منگل سے ہوگیا ہے۔
  • اس فرمان کے بارے میں ایک روز قبل میڈیکل اداروں کے سربراہان کے کابل میں ہونے والے اجلاس میں آگاہ کیا گیا تھا۔
  • طالبان حکام نے اس مبینہ پابندی یا پیر کو افغان دارالحکومت میں ہونے والے اجلاس پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

اسلام آباد افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان حکام نے خواتین کے میڈیکل اسکولوں میں داخلے پر بھی مبینہ طور پر پابندی عائد کردی ہے جس کے بعد خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا آخری دستیاب موقع بھی ختم ہو گیا ہے۔

حکام اور تمام طبی اداروں کے سربراہان کے اجلاس کے بعض شرکا نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ کے جاری کردہ فرمان کا اطلاق منگل سے ہوگیا ہے۔

اس فرمان کے بارے میں ایک روز قبل میڈیکل اداروں کے سربراہان کے کابل میں ہونے والے اجلاس میں آگاہ کیا گیا تھا۔

تاہم طالبان حکام نے اس مبینہ پابندی یا پیر کو افغان دارالحکومت میں ہونے والے اجلاس پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

انسانی حقوق کے حامیوں اور غیر ملکی سفارت کاروں نے اس ہدایت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کی لگائی گئی پابندی کی وجہ سے پہلے ہی مرد ڈاکٹر خواتین کا علاج نہیں کر سکتے۔ اس ہدایت سے لاکھوں خواتین صحت کی دیکھ بھال کی ضروری خدمات کے ساتھ ساتھ دائیوں، خواتین نرسوں اور ہیلتھ ورکرز سے محروم ہو جائیں گی۔

کابل میں برطانیہ کے سفارتی مشن کے ناظم الامور رابرٹ ڈکسن نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا کہ انہیں ان نئی رپورٹس پر گہری تشویش ہے کہ طالبان افغانستان میں خواتین کو طبی تعلیم سے روک رہے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ یہ خواتین کے تعلیم کے حق کی ایک اور توہین ہے اور اس سے افغان خواتین اور بچوں کے لیے صحت کی سہولتوں تک رسائی مزید محدود ہو جائے گی۔

اگست 2021 میں افغانستان کا دوبارہ کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے سخت گیر طالبان نے خواتین کی یونیورسٹی کی تعلیم پر پابندی عائد کی اور وہاں چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت نہیں ہے۔

اسی طرح ہیلتھ کیئر، امیگریشن اور پولیس جیسے بعض شعبوں کے سوا تمام شعبوں میں افغان خواتین کے کام کرنے پر بھی پابندی ہے۔

افغانستان کی ڈی فیکٹو طالبان حکومت اپنی پالسییوں کا دفاع کرتی ہے اور ان کا مؤقف ہے کہ یہ پالیسیاں اسلامی شرعی قوانین کی طالبان کی تشریح کے مطابق ہیں۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر منگل کو پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں افغان لڑکیوں کو صحت کے اداروں میں داخلے پر لگائی گئی پابندی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

میڈیکل اسکول میں داخلے سے منع کیے جانے کے بعد ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں طالبات کے ایک گروپ کو طالبان حکام سے متعلق یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ “خواتین کو زہر دینا چاہیے تاکہ ان کی پُرامن موت یقینی ہوسکے۔”

وائس آف امریکہ آزاد ذرائع سے اس ویڈیو کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

انسانی حقوق کی حامی تنظیم افغانستان ویمن اینڈ چلڈرن اسٹرینتھن ویلفیئر آرگنائزیشن نے ایک بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ بے شمار خواتین کو طب کے شعبے میں کریئر بنانے کا موقع فراہم کرنے سے روکتا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں خواتین نے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنے میں۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ پابندی افغانستان کے پہلے سے تباہ حال صحت کے نظام کو مزید کمزور کردے گی جو آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خواتین میڈیکل پروفیشنلز پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔



Supply hyperlink

Leave a Reply