|
ویب ڈیسک — اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ یمن سے اسرائیل پر منگل کو میزائل داغے گئے ہیں جن کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
فوج نے ایک بیان میں کہا کہ میزائل اسرائیل کی جانب بڑھنے پر متعدد علاقوں میں شہریوں کو محفوظ شیلٹرز میں جانے کے لیے سائرن بجائے گئے۔ البتہ ان میزائلوں کو اسرائیل کی فضائی حدود میں داخل ہونے سے قبل تباہ کر دیا گیا تھا۔
بیان کے مطابق ان میزائلوں سے فضا یا زمین پر کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
غزہ میں ایک برس قبل اکتوبر 2023 میں جنگ کے آغاز کے بعد سے یمن کے دارالحکومت صنعا سمیت وسیع رقبے پر قابض حوثی باغیوں کی جانب سے اسرائیل پر مسلسل میزائل داغے جا رہے ہیں۔
اسرائیل نے بھی یمن میں حوثیوں کی عسکری تنصیبات پر کئی بار بمباری کی۔
پیر کو اسرائیل کے وزیرِ دفاع یسرائیل کاٹز نے یمن کے حوثی باغیوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ حوثیوں کے رہنماؤں کا مقدر بھی حماس اور حزب اللہ کے رہنماؤں کی طرح ہوگا۔
لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ اور فلسطینی عسکری تنظیم حماس کی اعلیٰ قیادت اسرائیل کے حملوں میں ماری جا چکی ہے۔
یمن کے حوثی باغیوں کے ساتھ ساتھ حزب اللہ اور حماس کی پشت پناہی ایران کر رہا ہے جب کہ امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک انہیں دہشت گرد تنظیمیں قرار دے چکے ہیں۔
پیر کو اسرائیلی وزیرِ دفاع نے تصدیق کی کہ اگست میں ایران کے دارالحکومت تہران میں اس دھماکے کا ذمے دار اسرائیل تھا جس میں حماس کے سیاسی امور کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی موت ہوئی تھی۔
یہ پہلی بار ہے کہ اسرائیل نے اس حملے اور اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کی باقاعدہ ذمے داری قبول کی ہے۔ اس کے قبل صرف یہ قیاس ہی کیا جا رہا تھا یہ اسرائیلی کارروائی تھی۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق یسرائیل کاٹز کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کے رہنماؤں کو ہلاک کیا جب کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت گرانے میں مدد کی اور ایران کا طیارہ شکن نظام تباہ کر دیا۔
انہوں نے حوثی باغیوں کے حوالے سے کہا کہ “ہم ان کے اسٹریٹجک تنصیبات پر حملے کریں گے اور ان کے رہنماؤں کے سر کاٹ دیں گے۔”
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے جس طرح اسماعیل ہنیہ کو تہران، یحییٰ سنوار کو غزہ اور حسن نصر اللہ کو لبنان میں نشانہ بنایا اسی طرح کی کارروائی یمن میں حدیدہ اور صنعا میں کی جائے گی۔
لبنان کے جنوب اور مشرق میں حالیہ مہینوں میں ہونے والی شدید لڑائی کے دوران اسرائیلی فورسز نے حزب اللہ کے کئی اہم رہنماؤں کو ہلاک کیا ہے۔
اس تنازع میں کشیدگی ایک ماہ قبل اس وقت کم ہوئی جب فریقین جنگ بندی پر راضی ہوئے۔ دوسری جانب غزہ میں ایک سال دو ماہ سے جاری لڑائی کو روکنے کے لیے امریکہ، مصر اور قطر کے مذاکرات کار مصروفِ عمل ہیں۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے پیر کو اسرائیلی پارلیمان میں خطاب میں کہا ہے کہ غزہ میں موجود یرغمالوں کی بازیابی کے لیے جاری مذاکرات میں ‘کسی حد تک پیش رفت’ ہوئی ہے۔
خطاب میں ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل جو کر رہا ہے وہ سب کچھ منظر عام پر نہیں لایا جا سکتا۔
ان کے بقول “میں احتیاط کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور ہم ان سب کی گھر واپسی تک اقدامات کرنے سے نہیں رکیں گے۔”
واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ میں حالیہ کشیدگی سات اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی تھی جب غزہ کی عسکری تنظیم حماس نے اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر زمین، فضا اور بحری راستوں سے بیک وقت غیر متوقع حملہ کیا تھا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق اس حملے میں لگ بھگ 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے جب کہ حماس نے ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر غزہ منتقل کر دیا تھا۔ ان میں سے سو سے زائد یرغمالوں کو نومبر 2023 میں ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے دوران رہائی مل گئی تھی البتہ اب بھی لگ بھگ 100 افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حماس کی تحویل میں ہیں۔
اسرائیلی فورسز کا اندازہ ہے کہ ان سو یرغمالوں میں سے ایک تہائی کی موت ہو چکی ہے۔
سات اکتوبر 2023 کے حملے کے فوری بعد اسرائیل کی حکومت نے حماس کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے غزہ کی ناکہ بندی کر لی تھی اور وہاں بمباری شروع کر دی بعد ازاں زمینی کارروائی کا آغاز کیا۔
اسرائیلی کی حکومت نے کہا تھا کہ غزہ میں حماس کے خاتمے اور تمام یرغمالوں کی بازیابی تک اسرائیلی فوج کی کارروائی جاری رہے گی۔ غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے حکام کے مطابق 14 ماہ میں 45 ہزار سے زائد فلسطینی مارے گئے ہیں۔ البتہ اس تعداد میں عسکریت پسندوں اور عام شہریوں کی تخصیص نہیں کی گئی۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو پیر کو پارلیمان میں خطاب میں کہنا تھا کہ اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ نئے امن معاہدوں پر دستخط کا خواہاں ہے جس طرح امریکہ کی کوشش سے 2020 میں ابراہم اکارڈ کیا گیا تھا جس میں کئی عرب ممالک اور اسرائیل میں تعلقات کی بحالی کے لیے معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ ان معاہدوں میں بحرین، متحدہ عرب امارات اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کیے تھے۔
نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا کہ اعتدال پسند عرب ممالک اسرائیل کو علاقائی طاقت اور ایک ممکنہ اتحادی کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔
“میں اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔”
(اس رپورٹ میں خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس، رائٹرز اور اے ایف پی سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)