اسرائیل کی جوابی حملے کی دھمکیوں کے بعد ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد پریشان ہے جو پہلے ہی حکومت کی سخت پالیسیوں اور معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔
دریائے ہزار کے کنارے واقع ایران کے شمال میں واقع شہر امل کے 45 سالہ استاد ہیسم کے لیے ایک اور بری خبر ہے۔
ہیسم نے ’رائٹرز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حملے کی صورت میں معاشی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا اور شہریوں کی حفاظت خطرے میں پڑ جائے گی۔
ان کے بقول تہران کو تنازع سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ جنگ کی صورت میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہو گی۔
ہیسم جنگ نہیں چاہتے اور وہ فکر مند ہیں کہ اگر جنگ ہوئی تو وہ اپنے دو بچوں کی حفاظت کس طرح کریں گے۔
گھریلو خاتون پروانہ کو اندیشہ ہے کہ اسرائیل کا ایران پر حملہ اس کی معیشت پر آخری وار ہوگا جو کئی برس سے عائد بین الاقوامی پابندیوں، بد انتظامی اور بد عنوانی کے سبب پہلے ہی تباہ حال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایرانیوں نے کئی برس تک مشکلات برداشت کی ہیں اور جنگ ان کے لیے مزید تباہی لے کر آئے گی۔
پروانہ کی عمر 37 برس ہے۔ ان کے دو بچے ہیں اور وہ ایران کے وسطی شہر یزد کی رہائشی ہیں۔
پروانہ نے مزید بتایا کہ ان کے شوہر ایک کارخانے میں مزدوری کرتے ہیں۔ ان کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ اضافی اناج خرید کر ذخیرہ کر سکیں۔
ایران میں معاشی مشکلات کا زیادہ تر بوجھ متوسط اور کم آمدنی والے طبقے پر پڑ رہا ہے۔ ملک میں اس وقت افراطِ زر 50 فی صد سے تجاوز کر چکی ہے جس کی وجہ سے بنیادی ضروریات کی اشیا، خوراک اور رہائش کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کی کرنسی کی قدر انتہائی کم ہو چکی ہے۔
دوسری جانب ایران میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ایران کے اسرائیل پر حملے سے بہت زیادہ خوش ہے۔