|
اسرائیل کی وزارت خارجہ نے پیر کو کہا کہ ملک نے اقوام متحدہ کو باضابطہ طور پر مطلع کر دیا ہے کہ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی، انروا( UNRWA )کے ساتھ اگلے سال کے اوائل میں نیا قانون موثر ہوجانے کے بعد تعاون نہیں کرے گا ۔
یہ اقدام اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے ایجنسی کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے اور اسرائیل میں اس کے کام کرنے پر پابندی کے قانون کی منظوری کے بعد کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے ایک بیان میں کہا، ” اقوام متحدہ میں ہماری جانب سے پیش کیے گئےان زبر دست شواہد کے باجود، جو انروا میں حماس کی در اندازی کو ثابت کرتے ہیں ،اقوام متحدہ نے صورتحال کو سدھارنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔”
اسرائیل طویل عرصے سے انرواپر تنقید کرتا رہا ہے اور اس کے عملے کے کچھ ارکان پر 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے میں حصہ لینے کا الزام لگایا ہے۔
اسرائیل نے اپنے دعوؤں کی حمایت کے لیے بہت کم ثبوت فراہم کیے ہیں، اور انروا کے سربراہ فلپ لازارینی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ایجنسی کو اسرائیل سے ایسی معلومات فراہم کرنے کی بار بار کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
لازارینی نے کہا، “اس لیے انروا کے لیے ان الزامات سے نمٹنا مشکل ہے جن کے لیے اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، جب کہ یہ الزامات ایجنسی کو کمزور کرنے کے لیے مسلسل استعمال ہورہے ہیں ۔‘‘
انروا غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کو امداد پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کرتا رہا ہے، جہاں حماس کے حملے پر اسرائیل کی جوابی کارروائی سےبہت سے علاقے تباہ اور غزہ کے 23 لاکھ لوگوں میں سے تقریباً 90 فیصد بے گھر ہو گئے ہیں۔
لازارینی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ایجنسی کو ختم کرنے سے “غزہ میں انسانی بحران کے بارے میں بین الاقوامی ردعمل پر تباہ کن اثر پڑے گا۔”
اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ملک،’’ غزہ میں شہریوں کو انسانی ہمدردی کی امداد کی ترسیل میں سہولت کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کے دوسرے اداروں سمیت بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک ایسے طریقے سے کام کرتا رہےگا جس سے اسرائیل کی سلامتی کو نقصان نہ پہنچے۔
انسانی ہمدردی کے ادارے بارہا غزہ میں امداد کو پہنچانے میں تاخیر اورلڑائی کے باعث غزہ کے اندر امداد کی تقسیم کے لیے غیر محفوظ حالات کی شکایت کر چکے ہیں۔
شام میں زمینی کارروائی
اسرائیل نے اتوار کو کہا کہ اس نے شام کےاندر ایک زمینی چھاپہ مارا اور ایک شامی شہری کو گرفتار کیا جس کے بارےمیں اس کا دعویٰ تھا کہ وہ خطے میں عسکریت پسندوں کی حمایت کرنے والے ایرانی نیٹ ورکس میں ملوث تھا۔
اسرائیل کی شام میں یہ زمینی کارروائی مشرق وسطیٰ کے موجودہ 13 ماہ کےتنازع کے دوران اس کی پہلی کارروائی تھی ۔ شام نے فوری طور پر اس کارروائی کی تصدیق نہیں کی۔
اسرائیلی فوج نے یہ نہیں بتایا کہ چھاپہ کہاں یا کب مارا گیا لیکن پکڑے گئے شخص نے ، جس کی شناخت علی سلیمان العسی کے نام سے کی گئی ہےکہا کہ وہ جنوبی شام کے علاقے صیدا میں رہ رہا تھا۔
اسرائیل نے کہا کہ فوج اس شخص پر کئی ماہ سے نظر رکھے ہوئےتھی اور یہ کہ وہ شام کی سرحد کے قریب اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں کے علاقوں کو ہدف بنانے والے ایرانی اقدامات میں ملوث تھا۔
فوج کی طرف سے جاری چھاپے کی باڈی کیمرہ فوٹیج میں دکھایا گیا کہ فوجی ایک عمارت کے اندر ایک شخص کو گرفتار کر رہے ہیں ۔ فوج نے بتایا کہ اس شخص کو تفتیش کے لیے اسرائیل لایا گیا تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اتوار کے روز لبنان کے ساتھ واقع سرحد کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ معاہدے کے ساتھ یا اس کے بغیر ، شمال میں ہمارے انخلا کیے گئے شہریوں کی اپنے گھرو ں کو بحفاظت واپسی کی کلید یہ ہے کہ ،حزب اللہ کو دریائے لیتانی سے پیچھے رکھا جائے، تاکہ اس کے دوبارہ مسلح ہونے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا جائے اور ہمارے خلاف ہر کارروائی کا پوری طاقت سے جواب دیا جائے۔‘‘
ایک سال سے زیادہ عرصہ قبل ،حماس کے عسکریت پسندوں نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر اپنے حملے میں 1,200 لوگوں کو ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنایا تھا جس کےنتیجے میں موجودہ جنگ شروع ہوئی ۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اسے یقین ہے کہ حماس کے پاس ابھی تک 101 افراد یرغمال ہیں، جن میں وہ 35 فوجی ہ شامل ہیں جن کے بارے میں فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی غزہ میں جوابی کارروائی میں تینتالیس ہزار تین سو سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔وزارت اپنی گنتی میں جنگجو اور عام شہریوں میں فرق نہیں کرتی ہے۔
حماس اور حزب اللہ کو امریکہ اور دوسرے مغربی ملک دہشت گرد گروپ قرار دےچکے ہیں ۔
اس رپورٹ میں کچھ مواد اے پی ، رائٹرز اور اے ایف پی سے لیا گیاہے۔
