اسد حکومت کا تختہ اُلٹنے والے باغیوں کے سربراہ ابو محمد الجولانی کون ہیں؟

اسد حکومت کا تختہ اُلٹنے والے باغیوں کے سربراہ ابو محمد الجولانی کون ہیں؟ Leave a comment

  • امریکہ نے الجولانی اور اُن کی ‘ہیئت تحریر الشام’ تنظیم کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔
  • الجولانی 2003 میں عراق میں امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف سرگرم القاعدہ میں شامل ہوئے۔
  • سن 2016 میں الجولانی نے پہلی مرتبہ اپنا چہرہ ظاہر کیا اور اعلان کیا کہ اُن کا گروپ القاعدہ سے اپنی راہیں جدا کر کے ‘جبھہ فتح الشام’ کے نام سے جدوجہد جاری رکھے گا۔
  • ‘ہیئت تحریر الشام’ انضمام کے مخالف دھڑوں کے خلاف لڑتی رہی اور شمال مغربی شام میں اسے سرکردہ طاقت کے طور پر مزید تقویت ملی۔

شام میں باغیوں کی پیش قدمی اور دمشق پر قبضے کے دوران عسکری تنظیم ‘ہیئت تحریر الشام’ کا نام تو سامنے آتا رہا ہے، تاہم اس کے سربراہ ابو محمد الجولانی کا کردار پراسرار رہا ہے۔

لیکن دمشق پر باغیوں کے قبضے کے بعد اب ہر جانب اُن کے نام کی گونج ہے۔ الجولانی القاعدہ سے بھی منسلک رہے ہیں، تاہم 2016 میں اُنہوں نے اس سے راہیں جدا کر لی تھیں۔

دمشق پر کنٹرول کے بعد ابو محمد الجولانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ “اب مستقبل ہمارا ہے۔”

الجولانی نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ اقتدار کی منظم منتقلی تک شام کے ریاستی اداروں کی نگرانی وزیرِ اعظم کریں گے۔

اُن کے اس بیان کے بعد خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسد فیملی کے 50 سالہ دور کے خاتمے کے بعد شام کی قیادت میں اُن کا مرکزی کردار ہو گا۔

اپنے ایک انٹرویو میں الجولانی نے کہا تھا کہ وہ 1982 میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے جہاں اُن کے والد ملازمت کے لیے گئے تھے۔ تاہم بعد ازاں اُن کی پرورش دمشق کے قریب ہوئی۔

اُن کے بقول ابو محمد الجولانی اُن کا جہادی نام جب کہ اصل نام احمد حسین ہے۔

امریکہ نے الجولانی اور اُن کی ‘ہیئت تحریر الشام’ تنظیم کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ لیکن اب شام کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں بظاہر اُن کا اہم کردار ہو گا۔

برسوں تک شام کے شمالی مغربی علاقے ادلب تک محدود رہتے ہوئے الجولانی اپنی طاقت کو مستحکم کرنے میں کوشاں رہے ہیں۔ تاہم اس دوران ایران اور روس کی حمایت یافتہ اسد حکومت کا ملک کے دیگر حصوں میں کنٹرول مضبوط رہا۔

القاعدہ سے روابط

الجولانی 2003 میں عراق میں امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف سرگرم القاعدہ میں شامل ہوئے۔

امریکی فوج نے اُنہیں حراست میں بھی لیا، تاہم اُنہیں عراق میں ہی رکھا گیا۔ اس دوران القاعدہ نے ہم خیال دھڑوں کا کنٹرول سنبھال کر شدت پسند تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ آف عراق’ کی بنیاد رکھی جس کے سربراہ ابوبکر البغدادی تھے۔

سن 2011 میں اسد حکومت کے خلاف بغاوت اور بدترین حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد شام میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو البغدادی نے الجولانی کو القاعدہ کی شاخ ‘نصرہ فرنٹ’ قائم کرنے کے لیے شام بھیجا۔

امریکہ نے اس گروپ کو بھی دہشت گرد قرار دے رکھا ہے جب کہ امریکی حکومت نے الجولانی کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کر رکھی ہے۔

نصرہ فرنٹ

سن 2013 میں شام میں خانہ جنگی میں شدت کے بعد الجولانی کے عزائم بھی بڑھتے گئے اور اُنہوں نے ‘نصرہ فرنٹ’ کو تحلیل کر کے اسے داعش میں ضم کرنے کی البغدادی کی ہدایات کو بھی نظرانداز کر دیا۔

الجولانی اس دوران القاعدہ سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے رہے اور ‘نصرہ فرنٹ’ نے داعش کے خلاف جنگ کی اور اسد حکومت کے خلاف مسلح دھڑوں میں اپنی پوزیشن مزید مضبوط کر لی۔ اس وقت تک القاعدہ نے بھی داعش سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا تھا۔

سن 2014 میں الجولانی نے ‘الجزیرہ’ کو پہلا انٹرویو دیا، اس دوران اُنہوں نے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا۔ الجولانی کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد شام میں اسلامی قانون کے تحت حکومت کرنا ہے جب کہ ملک میں علوی، شیعہ، دروز اور مسیحی اقلیتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سن 2016 میں الجولانی نے پہلی مرتبہ اپنا چہرہ ظاہر کیا اور اعلان کیا کہ اُن کا گروپ القاعدہ سے اپنی راہیں جدا کر کے ‘جبھہ فتح الشام’ کے نام سے جدوجہد جاری رکھے گا۔

اس دوران ان کے گروپ نے کئی چھوٹے گروپس کا کنٹرول بھی سنبھال لیا اور ایک برس بعد اُنہوں نے دیگر مسلح دھڑے ضم کرتے ہوئے اپنے گروپ کا نام ‘ہیئت تحریر الشام’ رکھ دیا اور ادلب میں اپنا کنٹرول مزید مضبوط بنا لیا۔

‘ہیئت تحریر الشام’ انضمام کے مخالف دھڑوں کے خلاف لڑتی رہی اور شمال مغربی شام میں اسے سرکردہ طاقت کے طور پر مزید تقویت ملی۔

اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے الجولانی نے ایسا قدم اُٹھایا جس کا شاید تصور بھی مشکل تھا۔ اُنہوں نے نہ صرف باغیوں کے لباس کو پینٹ شرٹ میں تبدیل کیا بلکہ ملک میں مذہبی رواداری اور برداشت پر بھی زور دینے لگے۔

اُنہوں نے دروز کمیونٹی سے بھی روابط بنائے جنہیں ماضی میں ‘نصرہ فرنٹ’ نشانہ بناتا رہا تھا جب کہ ترکیہ نواز جنگجو دھڑوں کا نشانہ بننے والی کرد کمیونٹی سے بھی ہمدردی کا اظہار کیا۔

سن 2021 میں اُنہوں نے امریکی نشریاتی ادارے ‘پی بی ایس’ کو انٹرویو دیا اور کہا کہ اُن کے گروپ سے مغرب کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور اُن پر لگنے والی پابندی ناانصافی پر مبنی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ مغربی ممالک کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں لیکن امریکہ یا مغرب کے خلاف جنگ چھیڑنے کی قیاس آرائیوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں اداروں ‘رائٹرز’ اور ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ سے لی گئی ہیں۔



Supply hyperlink

Leave a Reply