|
اسلام آباد — پاکستان میں وفاقی حکومت نے ارکانِ پارلیمنٹ کی ترقیاتی اسکیموں کا بجٹ 25 ارب روپے سے بڑھا کر 50 ارب کر دیا ہے۔ بجٹ کی منظوری ڈپٹی وزیرِ اعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں قائم اسٹیئرنگ کمیٹی نے دی۔
27 ارکان پر مشتمل اسٹیئرنگ کمیٹی میں 16 ارکان پارلیمنٹ، سات وفاقی سیکریٹریز اور چار صوبائی نمائندے شامل ہیں۔
کمیٹی میں سابق وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف، شازیہ مری، اعجاز الحق، خالد مگسی اور قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے چیف وہپ طارق فضل چوہدری بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ارکانِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ دینے کا معاملہ متنازع رہا ہے اور معاشی مشکلات کا شکار پاکستان میں اس مد میں فنڈز بڑھانے پر بعض حلقے تنقید کر رہے ہیں۔
کمیٹی نے پاکستان پیپلزپارٹی کا مطالبہ بھی مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران غیر استعمال شدہ فنڈز بھی جاری کر دیے جائیں۔
نائب وزیر اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت گزشتہ برسوں کے لیپس شدہ فنڈز کی اس طرح دوبارہ توثیق کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
پلاننگ کمیشن کے سابق وفاقی سیکریٹری فضل اللہ قریشی کہتے ہیں کہ یہ اسکیمیں سیاسی مقاصد اور ارکان کو راضی رکھنے کے لیے دی جاتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ سلسلہ سابق وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں شروع ہوا تھا جو تاحال جاری ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ارکانِ اسمبلی کی ان اسکیموں کا آج تک آڈٹ نہیں ہو سکا اور ماضی میں ان اسکیموں کو میرٹ سے ہٹ کر دینے اور خرد برد کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس مئی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ترقیاتی منصوبوں پر سیاست دانوں کی تختیاں لگانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ذاتی تشہیر اور فنڈز کے معاملے پر تمام سیاسی پارٹیاں ایک پیج پر ہیں ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ارکانِ اسمبلی کا بنیادی مقصد قانون سازی اور فنڈز کی منظوری دینا ہوتا ہے۔
‘ڈپٹی کمشنر کے ذریعے اسکیمیں شروع ہوں گی’
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے چیف وہپ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کہتے ہیں کہ حکومت نے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے پروگرام (ایس اے پی) کے لیے فنڈز جاری کرنے کی منظوری دی ہے۔
اس پروگرام کے تحت فنڈز صوبوں کو جاری کیے جائیں گے صوبے آبادی کے لحاظ یا حلقوں کے بنیاد پر ضلعوں کو فنڈز جاری کریں گے ۔ اس پروگرام کے تحت ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر کے ذریعے اسکیمیں شروع ہوں گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ ارکانِ پارلیمنٹ کی اسکیموں کے لیے فنڈز کی منظوری دی گئی ہے درست نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ارکانِ پارلیمنٹ کی اسکیموں کے متعلق سپریم کورٹ حکم دے چکی ہے۔ یہ فنڈز چھوٹی اسکیموں کے لیے جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس پروگرام کے تحت منتخب نمائندے صرف اپنے علاقے میں کوئی اسکیم تجویز کر سکتے ہیں تاہم اسکیم دینے کا فیصلہ متعلقہ ضلع کی انتظامیہ کو کرنا ہے۔
پاکستان کی منصوبہ بندی وزارت کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ ایس اے پی پروگرام کی اسکیموں کے لیے بجٹ میں فنڈز مختص کیے گئے ہیں یہ عام لوگوں کی اسکیموں کے لیے فنذز ہیں ۔
اُن کا کہنا تھا کہ بجٹ میں منظور فنڈز کو جاری کیا جا رہا ہے۔تاہم سابق وفاقی سیکریٹری فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے کہ ایس اے پی پروگرام کے تحت ماضی میں حکومتی ارکان کو ہی اسکیمیں ملتی رہی ہیں جن پر پارلیمان اور میڈیا پر بھی شور مچتا رہا ہے۔
کیا یہ اسکیمیں صرف حکومتی ارکان کو ہی ملیں گی؟
ماہرین کا کہنا ہے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے ان اسکیموں کو ارکانِ اسمبلی کو دینے کی نفی کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ اسکیمیں حکومتی ارکان کو ہی ملنے کا امکان ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت سے فیصل آباد سے الیکشن جیتنے والے نثار احمد کہتے ہیں کہ یہ اسکیمیں ہمیشہ کی طرح حکومتی ارکان کو ہی ملیں گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز نہیں ملیں گے اور اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں بھی اُٹھایا جائے گا۔
ایس اے پی کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس کے منٹس کے مطابق ’پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے پروگرام‘ کے نام سے ان اسکیموں کے لیے 50 ارب کی منظوری دی گئی ہے جب کہ وزارت منصوبہ بندی کی ویب سائٹ پر موجود رواں مالی سال 25-2024 کے بجٹ دستاویز کے مطابق کابینہ ڈویژن کی ترقیاتی بجٹ میں ایس اے پی پروگرام کی اسکیموں کے لیے 25 ارب کی منظوری دی گئی تھی۔
اس طرح ان اسکیموں کے لیے بجٹ میں منظور رقم کو بڑھا کر د گنا کرتے ہوئے 50 ارب کر دیا گیا ہے۔
حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے پہلے سے نافذ کردہ اصولوں میں بھی ان اسکیموں کے لیے نرمی کی منظوری بھی دی ہے تاکہ ارکانِ پارلیمنٹ کی اسکیموں کے لیے فنڈز کی فوری تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔
دستاویز کے مطابق حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ اس طرح کی زیادہ تر اسکیموں پر عمل درآمد کرنے والے ادارے پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کو حال ہی میں حکومت نے ختم کر دیا ہے۔
لہٰذا یہ کام وزارتِ منصوبہ بندی کی نشان دہی پر وزارت ہاؤسنگ کی پاکستان انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (پی آئی ڈی سی ایل) کو دینے کی منظوری دے دی گئی ہے۔