اردن حملوں کا جواب، امریکہ کی شام اور عراق میں 85 اہداف پر بمباری Leave a comment



امریکی فورسز نے جمعے کو عراق اور شام میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے زیر استعمال درجنوں ٹھکانوں پر طیاروں اور ڈرونز سے حملے کیے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملے اردن میں ایک امریکی فوجی تنصیب ’ٹاور-22‘ پر ایران کے حمایت یافتہ ایک عسکری گروپ کے ڈرون حملے کے جواب میں کیے گئے جس میں تین امریکی فوجی ہلاک اور 40 کے لگ بھگ زخمی ہو گئے تھے۔

صدر جو بائیڈن اوروزیر دفاع سمیت ، اعلیٰ امریکی حکام کئی دن سے یہ انتباہ کر رہے تھے کہ امریکہ ملیشیاؤں کے خلاف جوابی کارروائی کرے گا اور انہوں نے یہ واضح کر دیا تھا کہ یہ صرف ایک حملہ نہیں ہو گا، بلکہ عرصے تک جاری رہنے والی سلسلے وار کارروائی ہو گی۔

شام اور عراق میں عسکری گروپوں پر ہونے والے ان حملوں کے بارے میں عہدے داروں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہےکیونکہ انہیں اس پر بات کرنے کی اجازت نہیں۔

عہدے داروں کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں پائلٹ بردار اور بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے طیاروں نے حصہ لیا اور اس ابتدائی کارروائی میں عسکری گروپوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول ہیڈکوارٹرز، گولہ بارود کے ذخائر اور دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔

یہ حملے ڈیلاویئر میں ایئرفورس بیس ڈوور پر اردن کے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے تین امریکی فوجیوں کی میتیں وطن واپس پہنچنے کے چند گھنٹوں کے بعد کیے گئے۔

فوجیوں کی باقیات کی آمد کے موقع پر صدر بائیڈن، اعلیٰ عہدے دار اور غمزدہ خاندان بھی فوجی ایئرپورٹ پر موجود تھے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ ان حملوں کے بعد کیا اقدامات کیے جائیں گے، کیونکہ کئی دنوں سے دیے جانے والےامریکی انتباہات سے ہو سکتا ہے کہ عسکری گروپوں کے ارکان منتشر ہو کر چھپ گئے ہوں، جس سے امریکی فورسز کے لیے انہیں ڈھونڈ کر نشانہ بنانا مزید مشکل ہوسکتا ہے۔

لیکن یہ واضح ہے کہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں میں سے ایک کتائب حزب اللہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے باوجود کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملے معطل کر رہے ہیں، امریکی منصوبوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعرات کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے پچھلے سال اکتوبر کے وسط میں عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کتائب حزب اللہ کی طرف سے جاری کردہ اس بیان کو بھی بظاہر مسترد کر دیا تھاکہ وہ امریکہ کے خلاف فوجی کارروائیاں معطل کر رہی ہے۔

امریکی حملوں سے بظاہر ایران یا اس کی پاسدران انقلاب قدس فورس کو براہ راست ہدف نہیں بنایا گیا۔ ایران پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ اردن کے حملے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا”ہم ہمیشہ یہ سنتے ہیں کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں،” انہوں نے کہا۔ ” سب کچھ عمل میں ہی ہے۔”

آسٹن نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ اردن میں مہلک حملے کے بعد، اس طرح کے gestures بہت کم اور بہت تاخیر سے سامنے ائے ہیں۔

انہوں نے کہا، “ہم ان لوگوں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہتے ہیں جو اس کے ذمہ دار ہیں۔” “اور ہم اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ ہم پیش رفت کے ساتھ ساتھ انہیں ان صلاحیتوں سے محروم کرتے رہیں۔”

(اس خبر کے لیے معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)



Supply hyperlink

Leave a Reply