|
ویب ڈیسک _ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ جنگ بندی اور یرغمالوں کی واپسی کے لیے ہونے والی تازہ ترین کوششوں نے فریقین کے درمیان کسی معاہدے کی امید پیدا کی ہے۔
قطر اور مصر کی ثالثی میں رواں ہفتے ایک مرتبہ پھر مذاکرات کا دور ہوا جس میں امریکہ نے بھی حصہ لیا۔
خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق فریقین کے درمیان مذاکرات سے باخبر سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان کا مذاکرات پر اثر پڑا ہے۔
ٹرمپ نے حال ہی میں کہا تھا کہ 20 جنوری کو امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے سے قبل فریقین کے درمیان معاہدہ ہوجانا چاہیے اور صدارت سنبھالتے تک یرغمالی رہا نہ ہوئے تو ذمے داروں کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
ایک سفارتی ذریعے کا بتانا ہے کہ فلسطینی عسکری تنظیم حماس بھی رواں سال کے اختتام سے قبل معاہدہ چاہتی ہے۔
حماس کے اعلیٰ عہدیدار نے منگل کو دعویٰ کیا تھا کہ مذاکرات آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور بات چیت مکمل ہونے کے بعد قطر اور مصر معاہدے کا اعلان کریں گے۔
اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر نے بدھ کو میڈیا بریفنگ کے دوران مجوزہ معاہدے پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں جتنا کم کہا جائے بہتر ہے۔
رواں برس مئی میں صدر بائیڈن کی جانب سے پیش کردہ ایک مجوزہ معاہدے پر اسرائیل اور حماس کے درمیان موجود دوریوں کو کم کرنے کے سلسلے میں اسرائیلی مذاکرات بھی پیر کو دوحہ میں موجود تھے۔
فریقین کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں لیکن مذاکرات کا کوئی حتمی نتیجہ اب تک نہیں نکل سکا ہے۔
اسرائیل کا اصرار ہے کہ وہ غزہ میں فوج کی موجودگی برقرار رکھے گا وہیں حماس کا کہنا ہے کہ جب تک اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلا نہیں ہو جاتا، اس وقت تک یرغمالوں کو رہا نہیں کیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق امریکی سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر ولیم برنز بھی قطری وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی سے ملاقات کے لیے بدھ کو دوحہ میں موجود تھے جس کا مقصد اسرائیل اور حماس کے درمیان دوریوں میں کمی لانا تھا۔
سی آئی اے نے ولیم برنز کی دوحہ میں موجودگی پر فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
غزہ جنگ کا آغاز گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد ہوا تھا۔ حماس کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور 250 سے زیادہ کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اسرائیلی کی جوابی کارروائیوں میں اب تک غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 45 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہیں جب کہ غزہ کی تقریباً 23 لاکھ آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی ہے۔
مجوزہ معاہدہ میں کیا ہے؟
گزشتہ برس اسرائیل سے یرغمال بنائے جانے والے 251 یرغمالوں میں سے 96 اب بھی غزہ میں موجود ہیں جن میں سے اسرائیلی فوج کے مطابق 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کے عہدیداروں نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا ہے کہ معاہدے کا فریم ورک کچھ اس طرح ہے کہ جنگ بندی کے نفاذ کے بعد یرغمالوں کی رہائی تین مراحل میں ہو گی۔
عہدیدار کے مطابق پہلے مرحلے میں چھ ہفتوں کی جنگ بندی کے دوران یرغمال بنائے گئے سویلین اور خواتین فوجیوں کو فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے آزاد کیا جائے گا۔
حماس کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مرحلے کے دوران اسرائیل رفح کراسنگ کے مغربی علاقے میں واقع فلاڈیلفیا کوریڈور سے اپنی افواج کا انخلا کرے گا۔ مصر کی سرحد کے قریب واقع اس کوریڈور پر اسرائیل کا کنٹرول ہے۔
پہلے مرحلے میں ہی غزہ سٹی اور شمالی غزہ سے نقل مکانی کرنے والے رہائشی اسرائیلی فوج کی نگرانی میں واپس اپنے علاقوں میں آباد ہوں گے۔
حماس کے عہدیداروں کے مطابق جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں اسرائیلی مرد فوجیوں کو رہا کیا جائے گا جس کے بدلے متعدد فلسطینیوں کو جیلوں سے رہائی ملے گی، ان میں کم از کم 100 قیدی ایسے بھی ہوں گے جنہیں طویل مدت کے لیے سزا دی گئی ہے۔
اس مرحلے کے دوران اسرائیل اپنا فوجی انخلا مکمل کرے گا۔ لیکن مشرقی و شمالی سرحد پر اپنی فورسز برقرار رکھے گا۔
مجوزہ معاہدے کے تحت جنگ بندی کے تیسرے مرحلے میں جنگ کے خاتمے کا سرکاری طور پر اعلان کیا جائے گا اور غزہ میں بحالی کے کام کا آغاز کیا جائے گا جہاں اقوامِ متحدہ کی سیٹلائٹ ایجنسی کا کہنا ہے کہ 66 فی صد انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔
آخر میں مصر کی سرحد سے متصل رفح کراسنگ کا انتظام مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی، مصر اور یورپی یونین کے تعاون سے مشترکہ طور پر چلایا جائے گا۔
حماس کے عہدیدار نے منگل کو ‘اے ایف پی’ کو بتایا ہے کہ مصر، قطر، ترکیہ، اقوامِ متحدہ اور امریکہ معاہدے پر عمل درآمد کی ضمانت دیں گے۔ تاہم ان میں سے کسی نے بھی اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ فلاڈیلفیا کوریڈور سے اسرائیلی فوجیوں کی واپسی نہیں چاہتے۔
ایک سفارتی ذریعے نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا ہے کہ اسرائیل سرحدی پٹی سے افواج کو کبھی نہیں نکالے گا جب کہ چھوٹی سرحدی کراسنگ کو انتظامات سنبھالنے کے لیے دیگر پر چھوڑ دے گا۔
تنازع میں ایک اور معاملہ غزہ میں حکومتی انتظام چلانے کا ہے اور یہ معاملہ فسلطینی قیادت کے درمیان بھی اہم مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔
اسرائیل کئی بات کہہ چکا ہے کہ وہ حماس کو دوبارہ غزہ کا انتظام چلانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
(اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ اور ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔)