آئی ایس پی آر کا دعویٰ

آئی ایس پی آر کا دعویٰ Leave a comment

  • افغانستان میں موجود دہشت گرد سرغنہ کی ہدایت پر یہ حملہ کیا گیا۔آئی ایس پی آر کا دعویٰ
  • افغان عبوری حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔آئی ایس پی آر
  • طالبان حکومت کی طرف سے فی الحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن ماضی میں وہ ایسے تمام تر الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
  • اس سے قبل وہاں موجود تمام 33 دہشت گردوں کی ہلاکت کی اطلاع دی گئی تھی۔
  • بیان کے مطابق سیکیورٹی فورسز کے آپریشن سے پہلے 21 مسافر اور ایف سی کے 4 اہلکارہلاک ہوئے تھے۔

پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آرنے بلوچستان میں مشکاف کے علاقے میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے بارے میں جاری بیان میں ا لزام عائد کیا ہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد سرغنہ کی ہدایت پر یہ حملہ کیا گیا۔ جو واقعے کے دوران حملہ آوروں سے براہ راست رابطے میں تھے۔

بدھ کو رات گئے جاری بیان میں کہا گیا کہ یہ حملہ افغانستان میں موجود دہشت گرد سرغنہ کی ہدایت پر کیا گیا،ترجمان نے کہا کہ افغان عبوری حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔

ان الزامات کے جواب میں طالبان حکومت کی طرف سے فی الحال کوئی ردعمل نہیں دیا گیا لیکن ماضی میں وہ ایسے تمام تر الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز ہر قسم کی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے عزم پر قائم ہیں، معصوم شہریوں اور بہادر فوجیوں کی قربانیاں اس عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں اور پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج متاثرہ خاندانوں اور بازیاب کرائے گئے یرغمالوں کو مکمل معاونت فراہم کر رہی ہیں۔

بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر قبضے اور مسافروں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد دو دن تک سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری رہا۔ ان دو دنوں میں پیش آنے والے واقعات کا خلاصہ اس ویڈیو رپورٹ میں۔

اس سے قبل ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف نے کہاتھا کہ سیکیورٹی فورسز نے جعفر ایکسپریس حملے کے بعد یرغمال بنائے گئے مسافروں کو بازیاب کروالیا ہے اوراس دوران دہشت گردوں کے خلاف آپریشن مکمل کرتے ہوئے وہاں موجود تمام 33 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔بیان کے مطابق اس حملہ میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن سے پہلے 21 مسافر اور ایف سی کے 4 اہلکارہلاک ہوئے تھے۔

علیحدگی پسند تنظیموں کی ‘نئی اور جارحانہ’ حکمتِ عملی

سیکیورٹی ماہرین کا کہناہے کہ ٹرین پر حملہ اور مسافروں کو یرغمال بنانے کا یہ واقعہ کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور عسکری حکمتِ عملی میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔

سنگاپور میں قائم ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینئر ریسرچ فیلو عبدالباسط کہتے ہیں کہ بی ایل اے کا مسافر ٹرین پر حملہ دراصل بلوچستان میں جاری شورش کے نئے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے جو ان عسکریت پسند تنظیموں کے ارتقائی عمل اور ان کی بدلتی حکمتِ عملی کو واضح کر رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالباسط نے کہا کہ بلوچستان میں حالیہ عرصے کے دوران چھوٹے پیمانے سے بڑے پیمانے پر حملے دیکھنے کو ملے ہیں۔

ان کے بقول ان حملوں میں شہری گوریلا جنگ کی جھلک بھی زیادہ نمایاں ہو رہی ہے جو پہلے زیادہ تر دیہی علاقوں تک محدود تھی۔

کوئٹہ میں تعینات ایک سیکیورٹی اہلکار کا کہناہے کہ بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے حملوں کی شدت اورنوعیت میں تبدیلی لاتی رہی ہیں۔

ذرائع ابلاغ سے بات چیت پر ممانعت کے سبب نام نہ شائع کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ بلوچ عسکری تنظیمیں پہلے ٹرین کی پٹریوں یا موبائل ٹاورز کو دھماکے سے اڑانے جیسے حملوں تک محدود تھیں لیکن اب ان کے حملے زیادہ منظم اور پیچیدہ ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بی ایل اے کے حملوں میں خودکش یا فدائین حملوں کا بھی استعمال تیزی سے بڑھ رہاہے جن میں خواتین کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے حالیہ واقعات کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ٹرین پر قبضے اور کئی کئی گھنٹوں تک قصبوں اور سڑکوں کو کنٹرول میں رکھنے کے واقعات کا مقصد دراصل ریاست کے ردِعمل کا اندازہ لگانے کی کوشش ہے۔

پاکستان کی جانب سے افغانستان پر الزامات

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان پر براہ راست الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اس واقعہ سے چند گھنٹے قبل اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب ایمبیسڈر منیر اکرم نے سلامتی کونسل میں کہا تھا کہ افغانستان میں موجود 20 سے زائد دہشت گرد تنظیمیں خطے اور دنیا کیلئے خطرہ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی دہشت گرد تنظیموں کی تنظیم بن رہی ہے،پاکستان کے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد ہیں کہ کابل حکام پاکستان میں حملوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔

منیر اکرم کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں سرگرم سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے جو سرحدی محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان پر حملے کرتی ہے، ان کے بقول کالعدم تنظیم کے حملوں میں سیکڑوں جانیں ضائع ہو چکی ہیں جبکہ کالعدم بی ایل اے اور مجید بریگیڈ بھی پاک چین اقتصادی تعاون کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔

پاکستان ماضی میں کئی مرتبہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں ٹی ٹی پی اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی موجودگی کے حوالے سے بیانات دیتا رہا ہے اور گذشتہ سال دسمبر میں پاکستان نے افغانستان کے صوبہ پکتیا میں فضائی کارروائی کی تھی جس میں پاکستان کے دعویٰ کے مطابق اہم کمانڈرز سمیت 71 سے زائد دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے اور خودکش جیکٹ بنانے والی فیکٹری اور چار مراکز کو تباہ کیا گیا تھا۔

افغان عبوری حکومت ان تمام تر الزامات کی تردید کرتی آئی ہے اور دسمبر میں ہونے والی کارروائی کے بعد افغان حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں عام شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

گذشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان میں ہونے والے مختلف دہشت گرد حملوں کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے بارہا یہ دعویٰ کیا گیا کہ ان میں افغان شہری ملوث ہیں، حالیہ دنوں میں بنوں کینٹ پر ہونے والے حملے کے بعد بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی اور اس میں افغان شہری بھی شامل تھے۔

پاکستان میں اس وقت افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں اور پاکستان کی وزارت داخلہ نے رواں ماہ 31 مارچ تک 8 لاکھ سے زائد افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والےمہاجرین کو واپس جانے کا حکم دیاہے ،نہ جانے کی صورت میں آپریشن کے ذریعے ڈی پورٹ کرنے کا کہا ہے۔

اس سے قبل غیرقانونی مقیم افغان مہاجرین کو ملک سے نکالنے کے لیے نومبر 2023 سے آپریشن شروع کیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں یو این ایچ سی آر کے مطابق اب تک 8 لاکھ سے زائد مہاجرین کو افغانستان واپس بھجوایا جاچکا ہے۔



Supply hyperlink

Leave a Reply