|
ویب ڈیسک _دنیا میں نازی جرمنی کی جانب سے یہودیوں کے قتلِ عام یا ہولوکوسٹ کی یاد منائی جا رہی ہے۔ یہ دن آؤشوٹس کے نازی حراستی کیمپ سے آزادی کے دن منایا جاتا ہے جہاں لاکھوں یہودیوں کو مظالم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
پیر کو جنوبی پولینڈ میں اس دن کی یاد اسی مقام پر منائی جا رہی ہے جہاں نازی جرمنی نے 10 لاکھ سے زائد افراد کو مظالم کا نشانہ بنا کر قتل کردیا تھا جن میں اکثریت یہودیوں کی تھی۔
البتہ ان کیمپوں میں جنگی قیدی، ہم جنس پرست اور دیگر کو بھی رکھا گیا تھا جنھیں نازی جرمنی کے ڈکٹیٹر حکمران ایڈولف ہٹلر اپنی نسلی برتری کے نظریے کے تحت دنیا سے نیست و نابود کرنا چاہتے تھے۔
آؤشوٹس برکیناؤ میں اسٹیٹ میوزیم کے مطابق پیر کو ہونے والی یادگاری تقریب میں ان حراستی کیمپوں سے بچ جانے والے 50 افراد کی شرکت متوقع ہے۔ تقریب میں سیاسی رہنماؤں اور برطانوی فرماں روا بھی شریک ہوں گے۔
اس موقع پر حراستی کیمپس سے بچ جانے والے افراد یہاں ہونے والوں کے سامنے مظالم کا آنکھوں دیکھا حال بیان کریں گے۔
آؤشوٹس جبری مشقت کے کیمپ اور قتل گاہ
ہٹلر کی قیادت میں جرمنی نے 1939 میں پولینڈ پر حملہ کیا تھا جس کا مقصد مشرقی یورپ میں اپنے کنٹرول کو مزید وسعت دینا اور عالمی سطح پر اپنے حریف سوویت یونین کو براہِ راست چیلنج کرنا تھا۔
اس حملے میں جرمنی نے پولینڈ کے کئی دیگر علاقوں کے ساتھ اوسوائی سیم کے علاقے پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ اسی علاقے میں آؤشوٹس کے مقام پر نازی جرمنی نے حراستی کیمپ بنایا تھا۔
ابتدائی طور پر یہ پولش قیدیوں کے لیے بنایا گیا تھا جہاں کیتھولک مذہبی پیشواؤں اور پولینڈ کی زیرِ زمین مزاحمت کے ارکان کو رکھا جاتا تھا۔
بعدازاں جرمنی نے اس علاقے میں 40 ایسے کیمپ بنائے تھے جن میں سب سے بدنامِ زمانہ برکیناؤ تھا۔ اس کیمپ کی وسیع عمارت میں کئی گیس چیمبرز بنائے گئے تھے جو دراصل یہاں قید ہونے والوں کی قتل گاہیں تھیں۔
قیدیوں کو ریل گاڑی کے بالکل بند ڈبوں میں بھر کر برکیناؤ لایا جاتا تھا جہاں نازی حکام مشقت کے قابل افراد کو الگ کرلیتے تھے جب کہ بوڑھوں، خواتین، کم عمر اور نوزائیدہ بچوں کو گیس چیمبر میں بند کرکے قتل کردیا جاتا تھا۔
مجموعی طور پر آؤشوٹس اور دیگر کیمپوں، یہودیوں کی مخصوص بستیوں یا گھیٹوز اور قتلِ عام کی کارروائیوں میں 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا۔
جرمنی میں ہٹلر کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد 1933 سے یہودیوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو 1945 میں آؤشوٹس کیمپ کی آزادی کے دن تک جاری رہا۔ یہودیوں کی اس نسل کشی کے دور کو ہولوکاسٹ کہا جاتا ہے۔
آزادی کیسے ہوئی؟
سوویت فوجی جب 27 جنوری 1945 کو آؤشوٹس پہنچے تو انہیں یہاں لگ بھگ سات ہزار قیدی انتہائی لاغر حالت میں ملے تھے۔ سوویت اخبار ’پراودا‘ کے نامہ نگار بورس پولیوئی اس کیمپ کے حالات کے پہلے چشم دید گواہ تھے اور انہوں نے کیمپ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا تھا۔
انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’’ میں نے ہزاروں تشدد زدہ افراد کو دیکھا جنہیں ریڈ آرمی نے بچایا تھا۔ یہ اتنے لاغر ہوچکے تھے کہ سوکھی شاخوں کی طرح تیز ہوا سے ان کے جسموں پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا اور انہیں دیکھ کوئی بھی ان کی عمر کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔‘‘
یہ وہ وقت تھا جب اتحادی افواج یورپ میں جرمنی کے خلاف حملے کر رہی تھیں۔ سوویت فوج نے سب سے پہلے جولائی 1944 میں لوبلین میں میدانک کیمپ سے قیدیوں کو آزاد کرایا اور اس کے بعد آؤشوٹس اور دیگر کیمپوں کو آزاد کرانا شروع کیا۔امریکی اور برطانوی فورسز نے مغرب کی جانب کئی کیمپس سے قیدیوں کو آزاد کرایا۔
آزادی کے دن کے بعد بعض قیدی بیماریوں کی وجہ سے جانبر نہیں ہوسکے۔ کئی کو اپنے والدین، بچوں، شریکِ حیات اور بہن بھائیوں کی موت کا شدید صدمہ سہنا پڑا۔ کئی خاندان ایسے بھی تھے جس کا کوئی فرد زندہ نہیں بچا۔
تل ابیب یونیورسٹی میں ہولوکاسٹ کے مؤرخ ہاوی دریفس کا کہنا ہے ’’کیمپس سے بچ جانے والے یہودیوں کے لیے آزادی کا دن ایک بہت مغموم کرنے والا دن ہے۔‘‘
آؤشوٹس کی یادگار
آج آؤشوٹس کے مقام پر ایک یادگار قائم ہے جس کا انتظام پولینڈ کی حکومت کے پاس ہے۔ یہ پولینڈ کے ان مقامات پر شامل ہے جہاں سب سے زیادہ لوگ آتے ہیں۔ یہاں ان کیمپس کو جوں کا توں محفوظ رکھا گیا ہے تاکہ ان حالات کی جھلک دکھائی جاسکے جن میں یہاں سے قیدیوں کو رہا کرایا گیا تھا۔
اس یادگار کا مقصد ان مظالم کی یادوں کو زندہ رکھنا ہے جو یہاں کیے گئے تھے۔ اس یادگار کے لیے ایک گائیڈڈ ٹور بھی رکھا جاتا ہے اور مؤرخین یہاں تحقیق کرنے آتے ہیں۔ سال 2024 میں 18 لاکھ سے زائد افراد نے اس مقام کا دورہ کیا تھا۔
میوزیم کے لیے کئی چیلنجز ہیں جن میں بیرکس اور یہاں موجود ایسی اشیا کو محفوظ رکھنا ہیں جو زیادہ پائیدار نہیں ہیں۔ خاص طور پر ایک انتہائی حساس اور کربناک پراجیکٹ کیمپس میں ہلاک کیے گئے بچوں کے جوتے محفوظ رکھنا ہے۔
آؤشوٹس نازی دہشت کی علامت
آؤشوٹس صرف وہ مقام نہیں جہاں 11 لاکھ افراد کا قتلِ عام کیا گیا جن میں 90 فی صد یہودی شامل تھے۔ بلکہ یہ دنیا کو نازیوں کے ہولناک جرائم کی بھی یاد دلاتا ہے۔ وہ جرائم جنہوں نے نفرت، نسل پرستی اور یہودیوں کی مخالف یا اینٹی سیمیٹزم سے جنم لیا تھا۔
آؤشوٹس کو اس لیے بھی ہولوکاسٹ کی نمایاں ترین علامت ہے کہ یہاں مظالم سہنے والے ہزاروں افراد زندہ بچ گئے تھے جنہوں نے دنیا کو یہاں ہونے والے مظالم کا آنکھوں دیکھا حال سنایا۔
پولینڈ میں نازی جرمنی کے مقبوضہ علاقوں میں ٹریبلنکا اور بلزیک کیمپوں میں 1942 سے 1943 کے درمیان نو لاکھ سے زائد افراد کو قتل کیا گیا جن میں اکثریت یہودیوں کی تھی۔ لیکن ان کیمپوں میں جرمن اپنے جرائم چھپانے میں کامیاب رہے۔ ان کیمپوں میں رکھے گئے افراد میں سے شائد کوئی بھی نہیں بچ سکا اور ان کے سراغ بھی مٹا دیے گئے۔
آؤشوٹس میں جرمنی کے بنائے گئے بیرکس اور واچ ٹاؤر، گیس چیمپر میں بال اور قتل کیے گئے افراد کی دیگر باقیات بھی مل گئے۔ وہاں ایک دروازہ بھی محفوظ رہا جس پر لکھا تھا ’کام آپ کو آزادی دے سکتا ہے۔‘‘ اس دروازے کو دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔
اس خبر کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔