چوتھے انتخابی مرحلے میں مزید 96 نشستوں پر پولنگ، تند و تیز سیاسی بیانات کا سلسلہ جاری Leave a comment


  • لوک سبھا کے انتخابات میں پیر کو چوتھے مرحلے میں 9 ریاستوں کی 96 نشستوں پر پولنگ ہو رہی ہے۔
  • آندھرا پردیش، تیلنگانہ، جھارکھنڈ، اڑیسہ، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، بہار، مہاراشٹر، مغربی بنگال اور کشمیر میں ووٹنگ ہو رہی ہے۔
  • چوتھے مرحلے کے اہم امیدواروں میں اسد الدین اویسی، شتروگھن سنہا، سابق کرکٹر یوسف پٹھان، مہوا مائترا اور اکھلیش یادو قابل ذکر ہیں۔
  • چار مرحلوں کے ساتھ لوک سبھا کی 543 نشستوں میں 381 پر ووٹ ڈالنے کا عمل مکمل ہو جائے گا۔

نئی دہلی — بھارت کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں لوک سبھا کے انتخابات میں پیر 13 مئی کو چوتھے مرحلے میں نو ریاستوں کی 96 نشستوں پر پولنگ ہو رہی ہے۔

چوتھے مرحلے میں آندھرا پردیش میں 25، تیلنگانہ میں تمام 17، جھارکھنڈ اور اڑیسہ میں چار چار، اتر پردیش میں 13، مدھیہ پردیش میں آٹھ، بہار میں پانچ، مہاراشٹر میں 11، مغربی بنگال میں آٹھ اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک سیٹ پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔

قبل ازیں 19 اور 26 اپریل اور سات مئی کو تین مرحلوں کی پولنگ ہو چکی ہے۔

چوتھے مرحلے کے اہم امیدواروں میں اسد الدین اویسی، شتروگھن سنہا، سابق کرکٹر یوسف پٹھان، مہوا مائترا اور اکھلیش یادو قابل ذکر ہیں۔

اسد الدین اویسی کا مقابلہ سابق اداکارہ اور بی جے پی امیدوار مادھوی لتا سے جب کہ یوسف پٹھان کا کانگریس کے سینئر رہنما ادھیر رنجن چوہدری سے سامنا ہے۔

ان چار مرحلوں کے ساتھ لوک سبھا کی 543 نشستوں میں 381 پر ووٹ ڈالنے کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ گزشتہ تین مرحلوں میں ووٹنگ کی شرح 2019 کے مقابلے میں کم رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق کم ٹرن آؤٹ کی بنیادی وجہ بی جے پی کے کارکنوں کا ووٹ دینے کے لیے کم تعداد میں نکلنا ہے۔ لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شدید گرمی کی وجہ سے لوگ ووٹ دینے کے لیے کم پہنچ رہے ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانب سے متنازع بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وہیں اپوزیشن کے اتحاد ’انڈیا‘ کی جانب سے مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل پر آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ حکمراں اتحاد این ڈی اے کی جانب سے مذہبی اور جذباتی ایشوز کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

تین مرحلوں کی پولنگ سے قبل وزیرِ اعظم مودی کانگریس، پاکستان اور مسلمانوں پر متعدد الزامات لگا چکے ہیں۔

انہوں نے تیسرے مرحلے کی پولنگ کے روز ایک انتخابی تقریر میں کہا تھا کہ انہیں لوک سبھا کی 400 نشستیں اس لیے چاہئیں تاکہ کانگریس رام مندر پر ’بابری تالا‘ نہ لگا سکے اور دفعہ 370 کو واپس نہ لا سکے۔

انہوں نے اتوار کو مغربی بنگال کے برک پور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ممتا حکومت کے دوران دراندازی میں اضافے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی طاقت بنگال میں شہریت کے ترمیمی قانون، سی اے اے کے نفاذ کو نہیں روک سکتی۔

یاد رہے کہ ممتا بنرجی کا مؤقف ہے کہ وہ اپنی ریاست میں سی اے اے نافذ نہیں ہونے دیں گی۔

جب کہ کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے، راہل گاندھی، پرینکا گاندھی اور سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی ملک کے اصل مسائل پر عوام کو جواب دیں۔

سینئر تجزیہ کار اور ’مسلم پولیٹیکل کونسل‘ کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی کا کہنا ہے کہ رام مندر کے افتتاح کے بعد ایسا لگتا تھا کہ بی جے پی کو اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ لیکن انتخابی تاریخوں کے اعلان کے بعد حالات رفتہ رفتہ تبدیل ہونے لگے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم مودی کی جانب سے مسلمانوں کے حوالے سے متنازع بیانات دیے جانے لگے جسے غیر مسلموں نے بھی پسند نہیں کیا۔

سینئر تجزیہ کار وویک شکلا وزیرِ اعظم مودی کے بیانات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انتخابی مہم بہت نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ مودی کو مسلمان، پاکستان، منگل سوتر اور اس جیسے بیانات دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

ڈاکٹر تسلیم رحمانی کے مطابق ابتدائی تین مرحلوں میں پولنگ کم ہونے کی وجہ سے بی جے پی کے رہنماؤں پر بوکھلاہٹ طاری ہے اور اسی وجہ سے وزیرِ اعظم مودی متنازع بیانات دے رہے ہیں۔

ان کے خیال میں اب جو صورتِ حال ابھر کر سامنے آ رہی ہے اس کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت نہیں بنے گی۔

وویک شکلا کہتے ہیں کہ ہر پارٹی کے اپنی جیت کے دعوے ہیں۔ وہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ ٹرن آؤٹ میں کمی کی وجہ بی جے پی کارکنوں کا ووٹ دینے کے لیے کم تعداد میں نکلنا ہے۔ وہ اس کی وجہ شدید گرمی بتاتے ہیں۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کم ٹرن آؤٹ کا یہ مطلب نہیں کہ حکمراں جماعت ہار رہی ہے۔ جب ٹرن آؤٹ زیادہ ہوتا ہے تب تبدیلی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ یہ قیاس آرائیاں ہیں، سائنسی فارمولہ نہیں۔

ڈاکٹر تسلیم رحمانی کے خیال میں اس وقت راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی انتخابی بیانیہ تیار کر رہے ہیں اور بی جے پی دفاعی پوزیشن میں آگئی ہے۔ اس کو مجبور ہو کر اپوزیشن کے تیار کردہ بیانیے کا جواب دینا پڑ رہا ہے۔

عوامی حلقوں میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) میں گڑبڑ کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ کم نشستیں ملنے کے باوجود بی جے پی جوڑ توڑ کرکے اپنی حکومت بنا لے گی۔ لیکن کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کا امکان کم ہے۔

وویک شکلا کہتے ہیں کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ گزشتہ 10 برس میں ملک میں ترقی ہوئی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کا فروغ ہوا ہے۔ جہاں تک ملازمتوں کا سوال ہے تو دنیا بھر میں سرکاری ملازمتیں کم ہو رہیں اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔

دریں اثنا مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ نے سینئر کانگریس رہنما منی شنکر ایر کے اس پرانے بیان پر ردِ عمل ظاہر کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بھارت کو پاکستان کا احترام کرنا چاہیے کیوں کہ اس کے پاس بھی ایٹم بم ہے۔

امت شاہ نے اتوار کو اتر پردیش کے پرتاپ گڑھ میں ایک ریلی میں بولتے ہوئے کہا کہ منی شنکر اور فاروق عبد اللہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا احترام کرو اور پاکستان کے کنٹرول والے کشمیر کے بارے میں بات مت کرو۔ انہوں نے راہل گاندھی سے کہا کہ اگر وہ پاکستان سے ڈرتے ہیں تو ڈریں ہم نہیں ڈرتے۔

واضح رہے کہ منی شنکر ایر اور فاروق عبد اللہ کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان سے مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ کے ایک سابق جج مدن بی لوکور، دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ اور صحافی این رام نے راہل گاندھی اور نریندر مودی سے کہا ہے کہ وہ کسی عوامی مقام پر انتخابی ایشوز پر ایک دوسرے سے ڈبیٹ کریں تاکہ ملک ان کے خیالات جان سکے۔

راہل گاندھی نے اس دعوت کو قبول کر لیا ہے جس پر امیٹھی سے بی جے پی کی امیدوار اسمرتی ایرانی نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اپوزیشن اتحاد کی جانب سے وزیرِ اعظم کے عہدے کے امیدوار ہیں۔

ادھر جیل سے رہا ہونے کے بعد عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجری وال نے ہفتے کو دہلی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی اپنے لیے نہیں بلکہ امت شاہ کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں۔ وہ اگلے سال ستمبر میں 75 سال کے ہو جائیں گے اور اپنے بنائے فارمولے کے تحت سیاست سے سنیاس لے لیں گے اور امت شاہ کو وزیرِ اعظم بنا دیں گے۔

اس پر امت شاہ اور بی جے پی صدر جے پی نڈا نے کہا کہ بی جے پی کے آئین میں ایسی کوئی شق نہیں ہے اور مودی اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کریں گے۔

دریں اثنا ’نیشنلسٹ کانگریس پارٹی‘ (این سی پی) کے سینئر رہنما شرد پوار نے یہ بیان دے کر سیاست میں ہلچل مچا دی ہے کہ آئندہ چند برس میں چھوٹی سیاسی جماعتیں کانگریس میں ضم ہو جائیں گی۔ اس پر وزیرِ اعظم مودی نے ان سے کہا کہ انہیں اپنی پارٹی ضم کرنی ہے تو بی جے پی میں کریں کانگریس تو ختم ہو رہی ہے۔

سینئر تجزیہ کار نیرجا چوہدری نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس بیان سے انتخابات میں شرد پوار کی پارٹی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور ان کی پارٹی کے رہنما بی جے پی کے مقابلے میں کانگریس میں ضم ہونے کو ترجیح دیں گے۔ لیکن کانگریس سے نکلی دوسری پارٹیاں بھی ایسا کریں گی اس کا امکان معدوم ہے۔



Supply hyperlink

Leave a Reply